او آئی سی لیگ آف نیشنز کے انجام کی طرف؟

290

وزیر اعظم عمران خان ڈاکٹر مہاتیر محمد کی دعوت پر ملائیشیا کا دو روزہ دورہ کرکے آگئے۔ اب رواں ماہ ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان آنے والے ہیں اور یہاں وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اُدھر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا ایک اہم اور معنی خیز بیان سامنے آیا ہے جس میں بھارت کو واضح پیغام دیا گیا کہ کشمیر اُمت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ ملائیشیا، ترکی اور ایران وہ تین ممالک تھے جنہوں نے پانچ اگست کے بعد ہر مصلحت کو جوتی کی نوک پر رکھ کر کشمیر پر بھارتی اقدامات کی مذمت اور کشمیری عوام اور پاکستان کی مکمل حمایت کی۔ ترکی اور ملائیشیا کو اپنے اس موقف کی خاصی معاشی قیمت بھی چکانا پڑی۔ بھارت نے ملائیشیا کے ساتھ پام آئل کے معاہدات منسوخ کردیے جبکہ ترکی سے کچھ دفاعی لین کے متوقع معاہدے منسوخ کر دیے۔ اس کے باجود مہاتیر محمد اور طیب اردوان نے اپنا موقف بدلنے سے قطعی انکار کردیا۔ ایران اور بھارت کے تعلقات پچھلی دہائیوں سے غیر معمولی حد مضبوط ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود ایران نے بیان کی حد ہی سہی مگرکشمیریوں کی حمایت میں آواز بلند کی۔ چین کے بعد اس بھری دنیا میں پانچ اگست کے بعد جن ملکوں نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا اور نہ صرف پاکستان بلکہ کشمیریوں کوا حساس ِ تنہائی کا شکار ہونے بچایا وہ ترکی ملائیشیا ہی تھے۔ ترکی ایران اور ملائیشیا ہی مسلمان دنیا کے ملک تھے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا جائزہ لینے کے لیے ملائیشیا کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مہاتیر محمد اس کانفرنس کے میزبان جبکہ باقی تین ملک مہمان تھے۔ کانفرنس سے چند دن قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خلیجی ملکوں کے دورے پر گئے۔ کچھ قیاس آرائیاں اور سرگوشیاں ہوئیں عمران خان کی طیب اردوان کے ساتھ ملاقات ہوئی اور پاکستان نے نہایت پراسرار انداز میں کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر دی۔ یہ وہ وقت تھا جب کوالالمپور کے در ودیوار دوسرے راہنمائوں کے ساتھ ساتھ عمران خان کی تصویروں سے مزین ہو چکے تھے۔ پاکستان نے کانفرنس میں عدم شرکت کی وجہ تو ظاہر نہیں کی مگر طیب اردوان نے راز طشت ازبام کر دیا۔ انہوں نے عرب ملکوں کی پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کی بات کرکے پاکستان کو سُبکی سے بچالیا۔
عمران خان کے لیے ملائیشیا کانفرنس سے باہر رہنا ایک مشکل ترین فیصلہ تھا کیونکہ اس خواب میں وہ پوری طرح مہاتیر اور اردوان کے شریک تھے مگر معاشی مجبوریاں قوموں اور افراد کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں۔ یہاں ہم من حیث القوم اپنی معاشی تنگ دستی کی زد میں آچکے تھے۔ حکومت کے اس فیصلے کو خوب ہدف تنقید بنایا گیا اور یہ خدشات ظاہر کیے جانے لگے کہ اب ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خرابی کی راہ پر چلنے لگیں گے مگر اردوان اور مہاتیر محمد نے خود کو عظیم مدبر اور پاکستان دوست راہنما ثابت کیا۔ انہوں نے وقتی طور پر اپنی انا کو لگنے والے زخم کو بھول بھلا کر پاکستان کی معاشی مجبوریوں کو سمجھا اور دوستی کی دیوار میں دراڑ نہ آنے دی۔ قد آور اور مدبرین کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ ان کی نظریں مستقبل اور آنے والی نسلوں اور حالات پر ہوتی ہے۔ اب وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ملائیشیا اور ترک صدر کی پاکستان آمد نے تعلقات کی خرابی کی تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کیا۔
ملائیشیا کے دورے میں کئی اہم تجارتی معاہدے ہوئے ترک صدر کی آمد کے موقع پر بہت سے معاہدے متوقع ہیں۔ ان ممالک میں تجارتی مفادات سے زیادہ اس وقت نظریات کی یکسانیت اور ہم خیالی ربط وتعلق کی مشترکہ بنیاد ہے۔ یہ ممالک مسلمانوں کو درپیش مسائل پر ایک موقف کے حامل ہیں۔ اب عمران خان نے مظفر آباد میں اپنے خطاب میں کہا کہ کچھ عرب ملکوں کو تاثر مل رہا تھا کہ ملائیشیا کانفرنس او آئی سی کو کمزور کرنے کی کوشش کی اسی وجہ سے ہم اس میں شریک نہیں ہوئے۔ اس سے پہلے وہ ملائیشیا میں یہ کہہ چکے تھے کہ انہیں کانفرنس میں شریک نہ ہونے پر افسوس ہے۔ او آئی سی کی موجودہ حیثیت وہی ہے جو اقوام متحدہ کی ہے جس پر مالی وسائل فراہم کرنے والے ایک یا چند ملکوں کا اثر رسوخ ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے بنائے گئے فورم کا حال یہ ہے کہ اس کے چلانے والے پاکستان سے بہ اہتمام یہ فرمائش کرتے ہیں کہ کشمیر کو اُمت مسلمہ کا مسئلہ نہ بنائیں۔ فلسطین ان کے پہلو میں ڈھلتے سورج کی طرح وقت کے اُفق کے پار چھپ رہا ہے مگر وہ بے بسی اور بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں یہ نوشتہ دیوار ہے کہ او آئی سی عہد ماضی کی لیگ آف نیشنز کے انجام سے دوچار ہورہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کو روکنے میں ناکامی کے بعد یہ تنظیم قصۂ پارینہ بن گئی تھی۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا او آئی سی مسلمان دنیا کے مسائل سے لاتعلق رہنے اور نظریں چرانے کی روش پر گامزن رہے گی تو اس خلا کو کسی نہ کسی کو پُر کرنا ہے۔ ایسی صورت میں او آئی سی کی رسم قل کا باقاعدہ اعلان نہ بھی ہو مگر انجام کچھ ایسا ہی ہوگا۔ مسلمان دنیا کو درپیش مسائل پر قلندرانہ ادا کے ساتھ مصلحت اور خوف کو جھٹک کر آگے بڑھنے والے خود ہی مرکز نگاہ بنتے چلے جائیں گے۔