نئے علاقائی بلاک کی تجویز

194

اسلام آباد میں تعینات ایرانی سفیر سید محمد علی حسینی نے اسلام آباد اسٹرٹیجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ایرانی انقلاب کی 41ویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خطے کو درپیش مسائل کے حل کے لیے روس، چین، ترکی، پاکستان اور ایران پر مشتمل پانچ رکنی نیا علاقائی اتحاد بنانے کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پانچ ممالک نہ صرف خطے کے مسائل کا فہم اور ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان ممالک میں خطے کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور استعداد بھی موجود ہے۔ ایران کے ایک اعلیٰ سفارت کار کی یہ تجویز ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ابھی چند دن پہلے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ ملائیشیا کے دوران وزیر اعظم مہاتیر محمد کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں او آئی سی کی بے عملی اور خاص کر کشمیر کے مسئلے پر اس کی سرد مہری کا رونا رو چکے ہیں۔ دوسری جانب خطے کے مسائل پر پانچ ممالک کے ممکنہ اتحاد کی یہ تجویز ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسر ائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر فلسطین کے متعلق ایک ایسا قابل مذمت امن منصو بہ پیش کیا ہے جسے تسلیم کرنے کا مطلب عالم اسلام کے قلب میں کانٹے کی طرح پہلے سے موجود اسرائیل کو لاکھوں فلسطینیوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری کرنا ہے۔ اسی طرح مشرقی وسطیٰ کے ممالک شام، عراق، یمن اور لیبیا میں جاری خانہ جنگیوں اور فلسطین، روہنگیا اور کشمیر کے مسلمانوں پر اسرائیل، برما اور بھارت کے انتہا پسند حکمرانوں کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم پر پچھلی کئی دہائیوں کے دوران جس بے حسی اور لاتعلقی کا مظاہرہ اقوام متحدہ اور او آئی سی نے کیا ہے یہ شاید اسی کا ردعمل ہے کہ عالم اسلام کے ان سلگتے مسائل کے حل کے لیے جہاں ملائیشیا اور ترکی کی جانب سے آواز یں اٹھ رہی ہیں وہاں اس حوالے سے ایران بھی کا فی متحرک اور پریشان نظر آتا ہے۔ یہ بات اب شاید راز نہیں رہی کہ پاکستان کی خواہش اور کوشش کے باوجود او آئی سی کشمیر میں جاری تاریخ کے بدترین ظلم و جبر کے خلاف اب تک نہ تو کوئی موثر کردار ادا کر سکا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی آواز اٹھانے کے موڈ میں نظر آتا ہے جس کا اظہار وزیر اعظم عمران خان کھل کر کوالالمپور کے اپنے حالیہ دورے میں بھی کر چکے ہیں۔
عمران خان کا یہ کہنا بلاوجہ نہیں ہے کہ بعض دوست ممالک کا یہ کہنا درست نہیں تھا کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے امت مسلمہ کی یکجہتی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا اور اسی وجہ سے وہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے تھے جس پر انہیں افسوس ہے۔ دراصل کسی ملک کا سربراہ اس طرح کے معاملات میں اس قدر واضح پیغام دینے پر اسی وقت مجبور ہوتا ہے جب اسے تصویر کے دونوں رخ خود دیکھنے کا مو قع ملتا ہے۔ یہاں ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جب سے بھارت نے کشمیر میں کرفیو نافذ کرنے کے علاوہ بھارتی آئین میں ترمیم کر کے کشمیری مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے تب سے ترکی، ملائیشیا اور ایران کے علاوہ کسی بھی اسلامی ملک نے کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و درندگی کی مذمت اور افسوس کے دو بول بھی نہیں کہے حتیٰ کے اس نازک گھڑی میں ہمارے وہ دوست ممالک بھی بھارت کی زبان بول کر ہمیں ہماری زندگی اور موت سے جڑا یہ مسئلہ بھول کر بھارتی بالادستی قبول کرنے کے مشورے دیتے رہے ہیں جن کے غم میں ہم اکثر گھلے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ ممالک ہماری معاشی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں طرح طرح سے بلیک میل کرتے ہیں اور جن کے دبائو کے باعث ہمیں آزادانہ طور پر اپنے بعض فیصلوں کا اختیار بھی نہیں ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری ان کے ہاں گروی رکھ دینی چاہیے۔ اگر ان ممالک کو اپنے مفادات عزیز ہیں تو ایک آزاد وخود مختار اسلامی نظریاتی مملکت ہونے کے ناتے ہمارا بھی یہ دینی و اخلاقی فرض ہے کہ ہم کشمیر، فلسطین اور روہنگیا کے اپنے مظلو م و محکوم مسلمان بھائیوں کی آزادی کی جدو جہد میں ان خطوں کے مسلمانوں کی حمایت اور پشتیبانی کے ساتھ ساتھ شام، یمن اور لیبیا میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور ان خطوں میں دیرپا امن و استحکام کے لیے خطے کے دیگر اسلامی ممالک خاص کر ترکی، ملائیشیا اور ایران کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں نیز اگر اس عمل میں چین اور روس جیسی علاقائی طاقتوںکو بھی ہم اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ یقینا اس خطے کی بڑی خوش نصیبی ہوگی۔