ن لیگ اور تحریک انصاف کے اختلافات ختم

329

قائد اعظم مسلم لیگ المعروف ق لیگ اور حکمران تحریک انصاف میں راضی نامہ ہو گیا ہے اور اختلافات دور کر لیے گئے ۔ اختلافات کیا تھے اور کس قیمت پر دور ہوئے ، یہ اتحادیوں کی آپس کی بات ہے ۔ اپنے’’شریکوں‘‘ کو راضی کرنے کے لیے عمران خان نے پہلے ایک ٹیم بھیجی تھی لیکن خود ہی ٹیم بدل دی جس پر چودھری پرویز الٰہی خاصے ناراض ہوئے تھے اور بلھے شاہ کا ایک شعر بھی سنایا تھا جس کا مفہوم تھا’’پہلی نہ آخری‘میں راضی ہوں درمیانی سے‘‘۔ اس سے ان کی مراد کیا تھی اور’’وچلی‘‘ کمیٹی کون سی تھی جس نے چودھری صاحب کو راضی کر لیا ۔ ان کا شکوہ تھا کہ ہم سے ’’سوتیلی‘‘ جیسا سلوک نہ کیا جائے ۔ بہر حال اب تحریک انصاف نے سگوں جیسا سلوک کر دیا ۔ چودھری پرویز الٰہی اپنی ناراضی کے اظہار کے باوجود یہ کہتے رہے کہ وہ تحریک انصاف کو چھوڑیں گے نہں ۔ یہ ذو معنی جملہ ہے ۔ تاہم ق لیگ نے تو اگر ایک آمر پرویز مشرف کا ساتھ دیا تو اسے بھی اس وقت تک نبھایا جب تک خود پرویز مشرف اپنی کھال اتار کر ملک سے نہیں نکل گئے ۔ پرویز مشرف نے انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا رکھا تھا اور احسان کا بدلہ احسان ہی ہوتا ہے چنانچہ پرویز الٰہی نے دعوی کیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو وردی سمیت10 بار صدر منتخب کریں گے ۔ 10بار کا مطلب50 سال ہوتے ہیں ۔ وہ توپرویز مشرف ہی اسلام آباد کے ’’کارگل‘‘ سے اتر آئے ورنہ تو سندھ میں بھی ایم کیو ایم کی صورت میں ان کے وفا دارموجود تھے ۔ اب یہ وفا دار کسی اور کے ساتھ ہیں ۔ جہاں تک پنجاب کا معاملہ ہے تو وہاں کی سیاسی انتظامی صورتحال بڑی پیچیدہ ہے ۔ چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کا عہدہ دیا ہوا ہے تاہم مرکز میں بھی ق لیگ ایک وزیر کی متمنی ہے۔ گو کہ پرویز الٰہی اور مونس الٰہی اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ انہیں وفاق میں وزارت کا لالچ ہے لیکن پھر یہ سوال تو اُٹھتا ہے کہ ناراضی کی وجہ کیا تھی ۔ کیا فنڈز کا معاملہ تھا یا کچھ اور ۔ عمومی رائے یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار سے پاکستان کا یہ سب سے بڑا اور اہم صوبہ سنبھل نہیں رہا لیکن’’ جسے پیا چاہے وہی سہاگن کہلائے‘‘ کے مصداق عمران خان پوری قوت کے ساتھ عثمان بزدار کی پشت پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ اس کے لیے انہیں خود جا کر معاملات کو دیکھنا پڑتا ہے ۔ پنجاب کی وزارت علیا کے کئی ایک امید وار ہیں اور جن کو گھاس نہیں ڈالی گئی وہ گڑ بڑ تو کریں گے ۔ ان باتوں کو عمران خان بھی سمجھتے ہوں گے ۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی عددی قوت کچھ قابل بھروسا نہیں چنانچہ شریکوں کو منانا اور سینے سے لگائے رکھنا عمران خان کی مجبوری ہے ۔ حکومتوں کے پاس اگر واضح اکثریت نہ ہو تو اِدھر اُدھر سے اینٹ ، روڑا جمع کرنا پڑتا ہے لیکن پھر ان کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہونا پڑتا ہے ۔ مرکز میں بھی یہی صورتحال ہے ۔ وہاں ایم کیو ایم کو منانے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے ۔