عمران خان صدر کی ہائے سے بچیں

309

صدر مملکت کو بھی پتا چل گیا کہ ان کی حکومت کے دو برس میں 22 لاکھ لوگ بیروزگار ہوگئے۔ ماہرین معاشیات کے جائزے کے مطابق حکومت کے پہلے برس میں دس لاکھ لوگ بیروزگار ہوئے اور رواں مالی سال ختم ہونے تک مزید بارہ لاکھ بیروزگار ہوجائیں گے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حکومت پانچ برس میں ایک کروڑ ملازمتوں کے وعدے کے بہت قریب پہنچ جائے گی۔ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ پانچ سال میں ایک کروڑ ملازمین اور 50 لاکھ گھر… بہت پرانا لطیفہ ہے بلکہ موجودہ حکمرانوں کے ہر اعلان پر ایک لطیفہ یاد آجاتا ہے۔ فی الحال تو یہ تازہ کرلیں… ایک میلے میں خیمہ لگا کر ایک آدمی نے بورڈ لگادیا تھا۔
ہاتھی کے برابر انڈادیکھیے صرف پانچ روپے میں۔ اور لوگوں کا رش اس قدر تھا کہ اس کی مثال پاکستان میں سی این جی کی لائن اور چین میں ماسک لینے والوں کی لائن سے دی جاسکتی ہے۔ سیکڑوں لوگ روز لائن میں لگے ہوتے اور ہاتھی کے برابر انڈا دیکھ کر چلے جاتے۔ لیکن کوئی کچھ بتاتا نہیں تھا۔ بالآخر ایک صحافی نے بھی پانچ روپے خرچ کر ڈالے اور ہاتھی کے برابر انڈا دیکھنے پہنچ گیا اور دیکھتا کیا ہے واقعی ہاتھی کے برابر انڈا تھا… ایک ہاتھی کے برابر ایک پلیٹ میں انڈا رکھا ہوا تھا۔
تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کی طرح پانچ پانچ روپے خرچ کرنے والے ہزاروں لوگ شرمندگی کے مارے دوسرے دروازے سے گھر نکل جاتے، کیوں کہ ہاتھی کے برابر انڈا تو تھا۔ اب ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانات کے نعرے کا احوال بھی ایسا ہی ہے جیسا اداکار لہری نے کسی کی مرغی چوری ہونے پر عدالت میں گواہی دی تو عدالت نے پوچھا کہ کتنی بڑی تھی تو اپنے قد کے برابر ہاتھ اونچا کردیا۔ عدالت نے روایتی طور پر برہم ہو کر کہا ہمیں سب پتا ہے اتنی بڑی مرغی ہوتی ہے کیا۔ تو لہری نے کہا جناب دوسرا ہاتھ بھی تو آنے دیں۔ اور پانچ چھ انچ کے فاصلے پر نیچے دوسرا ہاتھ رکھ دیا۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانات کے اعلان کا دوسرا ہاتھ بھی تو آنے دیں۔ ابھی دیکھنا ہے یا… پانچ سال پورے ہونے کے بعد…؟۔ چوں کہ ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے اتاولے پن سے واقف ہیں اس لیے ابھی بتادیتے ہیں۔ (اتاولے کی تفصیل اطہر ہاشمی صاحب بتائیں گے) ہوگا یوں کہ پانچ سال پورے ہونے پر سالانہ دس فی صد کی شرح سے بیروزگاری میں اضافہ ہوگا اور یہ شرح بھی غیر ملکی ماہرین کی حرکتوں کے سبب بڑھتی رہے گی۔ پہلے سال دس لاکھ، دوسرے سال 22 لاکھ، تیسرے سال 36 لاکھ، چوتھے سال 55 لاکھ اور پانچ سال میں 70 لاکھ ہوجائے گی۔اسی طرح پہلے سال پانچ لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے، دوسرے سال بارہ لاکھ۔ اس اعتبار سے پانچ سال میں تیس سے چالیس لاکھ لوگ بے گھر ہوجائیں گے۔ اب حکومتی تبدیلی کے اعلان پر بغلیں بجانے والے کہیں گے کہ دوسرا ہاتھ تو آنے دیں۔
اعلان دراصل یہ تھا کہ پانچ سال میں ایک کروڑ افراد بیروزگار ہوں گے تو ان کی اسامیاں خالی ہوجائیں گی۔ اس طرح ایک کروڑ ملازمتیں پیدا ہوجائیں گی۔ پھر پانچ سال میں ایک لاکھ گھر ختم ہوجائیں گے تو اوسطاً پانچ افراد فی گھر پہ تعداد پچاس لاکھ افراد تک پہنچ جائے گی اور یوں پانچ برس میں پچاس لاکھ افراد بے گھر… یہ آگیا دوسرا ہاتھ۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے سوا سال گزرا ہے۔ پانچ سال تو پورے ہونے دیں۔ پھر لگ پتا جائے گا کہ کون سا ہاتھ کتنا بڑا تھا۔
اب ہمارے صدر مملکت کو یہ تو پتا چل گیا ہے کہ 22 لاکھ لوگ بیروزگار ہوگئے لیکن وہ یہ بھی بتارہے ہیں کہ مہنگائی سے میں بھی پریشان ہوں۔ یہ بہرحال حیرت کی بات ہے کہ وزیراعظم کا دو لاکھ تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ صدر مملکت بھی 8 لاکھ میں مہنگائی سے پریشان ہیں لیکن اس پر غیر سوشل میڈیا کا تبصرہ ہے کہ دراصل مہنگائی کی وجہ سے لوگ دانتوں کا معائنہ کروانے نہیں جارہے اور صدر کے مریضوں نے صدر (ایمپریس مارکیٹ) کا رُخ کرلیا۔ جب صدر مملکت کا مریض مہنگائی کی وجہ سے صدر کا رُخ کرے گا تو پریشانی تو ہوگی۔ صدر نے کہا ہے کہ آٹا بحران گورننس کا مسئلہ ہے، ذمے داروں کی چھٹی ہونی چاہیے۔ یہ بات سابق صدر ممنون حسین نے بھی دوسرے انداز میں کہی تھی ان کی ہائے مسلم لیگ ن کی حکومت اور وزیراعظم کو لے ڈوبی اور آج تک ان کے ستارے گردش میں ہیں۔ یوں بھی پاکستان میں حکومتوں کو صدر کی ہائے سے بچ کر رہنا چاہیے۔ چودھری فضل الٰہی کی ہائے بھٹو کو لے ڈوبی۔ غلام اسحق خان کی ہائے نواز شریف کو اور فاروق لغاری کی بے نظیر حکومت کو لے ڈوبی۔ اب صدر عارف علوی بھی بول پڑے ہیں۔ کمزوری میں وہ چودھری فضل الٰہی جیسے ہی ہیں اس لیے ہلکی سی آواز نکالی ہے۔ لیکن یہ بھی بہت ہے۔
پتا نہیں صدر مملکت کے بیان کا جواب ہے یا وزیراعظم یوں ہی خود کلامی کررہے تھے، کہتے ہیں کہ حفیظ شیخ اور رضا باقر ہرگز تبدیل نہیں ہوں گے۔ مشیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک بہترین کام کررہے ہیں۔ کیا کام کررہے ہیں اس کا پانچ سال مکمل ہونے پر پتا چلے گا۔ جیسے اب پتا چلا کر شبر زیدی میری درخواست پر صرف چھ ماہ کے لیے آئے تھے۔ ارے جو صاحب برسہا برس سے لوگوں کو ٹیکس بچانے کے راستے دکھا رہے تھے اچانک وہ لوگوں کو ٹیکس ادا کرنے پر کیسے راضی کرلیتے۔ بہرحال اگر چھ ماہ کے لیے آئے تھے تو استعفا کیوں نہیں دیا۔ وزیراعظم بھی بس پریشان ہوجاتے ہیں پھر بھی گھبراتے نہیں۔ وہ تو کچھ بھی کہتے ہوئے نہیں گھبراتے۔ یہ کام عوام کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ اب یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بیروزگاری ٹیکس میں کمی و چینی کی برآمد و درآمد، گندم کی برآمد یہ سب پچھلی کرپٹ اور چور حکومتوں نے کیا ہے۔ گھبرانا نہیں۔