بہاولپور کا نابینا شاعر ظہور آثم فکری اعتبار سے جتنا توانا ہے معاشی طور پر اتنا ہی کمزور ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نیم مردہ ہے۔ وہ بہاولپور ہائی کورٹ میں ریکارڈ لفٹر تھا، نظر کی خرابی کے باعث ملازمت سے دستبردار ہونا پڑا، گھر چلانے کے لیے اخبار فروش بن گیا۔ بارش، دھوپ، سردی اور گرمی کی پروا کیے بغیر اخبار بانٹتا پھرا اور پھر ایک دن ایک حادثے میں اس کی بینائی جاتی رہی، وہ چار پائی سے لگ گیا، کسی نے اسے گلے نہیں لگایا، اس کا بیٹا جنید آثم بی اے کا طالب علم تھا، اخبار بانٹنے لگا۔ گھر گھر اخبار بانٹنے کے باعث تعلیم پر توجہ نہ دے سکا، انگریزی کے پرچے میں فیل ہوگیا، باپ نابینا اور والدہ برین ہیمرج کی وجہ سے مفلوج ہوگئی، ان حالات نے اسے ذہنی طور پر مفلوج کردیا مگر رفتہ رفتہ اس نے حالات سے سمجھوتا کرلیا اور پرائیویٹ طور پر بی اے کی تیاری کرنے لگا۔ تین بار داخلہ بھرا مگر امتحان ایک بار بھی نہ دیا۔ ایک روز ہم نے کہا بیٹا تم داخلہ تو بھرتے ہو مگر امتحان نہیں دیتے۔ تایا ابو داخلہ اس لیے بھرتا ہوں کہ مجھے کبھی احساس نہ ستائے کہ میں داخلہ نہیں بھر سکتا تھا سو، بی اے نہ کرسکا۔ تعلیم اس لیے حاصل نہیں کی جاتی کہ داخلہ بھرنے کی استطاعت ہوتی ہے تعلیم کا مقصد باشعور ہونا اور اچھے برے کی تمیز کرنا ہوتا ہے۔ اچھے بُرے کی تمیز تو جانوروں کو بھی ہوتی ہے، انسان کے لیے اچھی بُری زندگی میں تمیز کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بی اے کیا ایم اے کرکے بھی اخبار بانٹنا میرا مقدر ہے کیوں کہ اخبار فروش کا بیٹا اخبار فروش ہی ہوسکتا ہے۔ وزیر اطلاعات نہیں سکتا، جنید کے جواب نے ہمیں لاجواب کردیا۔
ظہور آثم کا شعری مجموعہ ’’برگ وقت پہ ٹھیرا قطرہ‘‘ کمپوزنگ کے مرحلے سے گزر چکا ہے مگر طباعت کا پل صراط باقی ہے۔ ظہور آثم نے اپنے بیٹے جنید آثم کے لیے ملازمت کی بہت کوشش کی مگر کسی صاحب اختیار کا موڈ نہ بنا سکا۔ 2011ء میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو درخواست دی کہ وہ سابق ریکارڈ لفٹر ہے، بیٹا ایف اے پاس ہے کمپوزنگ جانتا ہے، سیکورٹی گارڈ کا کورس بھی کیا ہوا ہے، میں بینائی سے محروم ہوگیا ہوں، اہلیہ برین ہیمرج کے باعث مفلوج ہوگئی ہے، بول سکتی ہے نہ چل پھر سکتی ہے، گزر بسر دوستوں کی مالی امداد سے ہوتی ہے مگر زندگی کی گاڑی مالی امداد سے نہیں چل سکتی۔ جواب آیا کہ تم اپنے مسئلے کے لیے بہاولپور ہائی کورٹ سے رابطہ کرو۔ ایک لیٹر بہاولپور ہائی کورٹ کو بھی روانہ کردیا گیا انہی دنوں بہاولپور ہائی کورٹ میں خالی اسامیوں کے لیے اشتہار شائع ہوا درخواست دی انٹرویو میں کامیاب ہوگیا مگر اپائمنٹ لیٹر نہ ملا اور پھر یہ سلسلہ پائوں کا چکر بن گیا۔ کچھ دن قبل لاہور ہائی کورٹ میں خالی اسامیوں کا اشتہار شائع ہوا، درخواست دی انٹرویو میں کامیاب ہوگیا مگر ایک جسٹس صاحب نے اپنا بندہ کھپانے کے لیے ناکام امیدواروں کو دوبارہ طلب کیا اور جنید آثم کا نام پھر حذف کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ناکام امیدواروں میں سے کسی کو منتخب کرکے ملازمت کا پروانہ جاری کیسے کردیا گیا؟ اور جنید آثم کا نام حذف کردیا گیا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا چار بار اسی اذیت سے دوچار کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ کوئی ڈھکی چھپ حقیقت نہیں کہ ’’ڈومور‘‘ کو قومی ترانہ بنادیا گیا، کبھی کوئی ملک ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا کرتا ہے اور کبھی حکومت قوم سے ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا کرتی ہے۔ ظہور آثم اتنا بددل ہوچکا ہے کہ اس نے لاہور ہائی کورٹ کے سامنے خودکشی کا تہیہ کرلیا مگر دوستوں کے اصرار پر اپنے ارادے باز رہا۔ مگر کب تک؟ ظہور آثم کے دو شعر نذر قارئین ہیں۔
کسی کو کیا بتائوں میں کہ اپنے پیٹ کی خاطر
کبھی بیچا لہو کبھی اخبار بیچے
جسم کے شہر کو فاقوں سے بچانے کے لیے
خندقیں کھودتا ہوں پیٹ سے باندھے پتھر