میئر کی بلدیہ عظمیٰ کا ریکارڈ آفس چہیتے افسر کے حوالے کرنے کی ہدایت

124

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بے اختیار میئر نے ادارے کے کالعدم آکٹرائے ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ آفس کی عمارت کو ڈائریکٹر اسٹیٹ کے سپرد کرنے کا حکم دے دیا۔ ڈائریکٹر اسٹیٹ نے عمارت کا قبضہ محکمہ چارجڈ پارکنگ سے حاصل کرنے کے بعد مبینہ طور پر آکٹرائے کا تمام ریکارڈ بے دردی سے شعبہ اسٹور کے کھلے مقام پر ڈلواکر ریکارڈ آفس کی عمارت کو اپنی رہائش گاہ میں تبدیل کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس مقصد کے لیے مذکورہ عمارت کی تزئین و آرائش کرانے کے لیے بھی سرگرم ہوگئے۔ تاہم ابھی تک مذکورہ عمارت جو 500 مربع گز کے بنگلے پر مشتمل ہے ابھی تک کے ایم سی کے دستاویزات میں بطور ریکارڈ آفس ہے‘ جس کی وجہ سے میئر کو اپنے اختیارات سے اسے رہائشی بنگلے میں تبدیل کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر صبغت اللہ راشدی روڈ ( اسٹیڈیم روڈ) پر نیشنل اسٹیڈیم کے سامنے واقع معزول شعبہ آکٹرائے کے ریکارڈ آفس کی مذکورہ عمارت گزشتہ20 سال سے بند تھی اس بلڈنگ میں آکٹرائے کا50 سالہ ریکارڈ تھا جسے چند روز قبل یہاں سے گارڈن کے قریب اسٹور میں غیر محفوظ طریقے سے رکھ دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میئر وسیم اختر کے چہیتے افسر فرید تاجک نے جو اس وقت ڈائریکٹر اسٹور ووہیکل اور ڈائریکٹر کچی آبادی کی اضافی اسامیوں پر تعینات ہیں نے مذکورہ ریکارڈ روم بطور سرکاری رہائش گاہ الاٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ان کی خواہش پر مذکورہ عمارت سے آکٹرائے کا ریکارڈ اسٹور میں منتقل کیا گیا۔ اس دوران ڈائریکٹر ایکموڈیشن نے میئر کی منظوری سے ضروری آرڈر جاری کیے۔ ان دنوں مذکورہ بنگلے کو رہائشی استعمال کے قابل بنانے کے لیے اس کی تزئین وآرائش کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ جس کے لیے میئر کی منظوری سے چیئرمین ورکس کمیٹی 10 لاکھ روپے کے خصوصی فنڈز کا استعمال کر رہے ہیں حالانکہ ان دنوں کے ایم سی شدید مالی بحران کا شکار بھی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس بنگلے کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر حاصل کرنے کے لیے ڈائریکٹر اسٹور ووہیکل نے اپنے اختیارات کا مبینہ طور پر غلط استعمال کرتے ہوئے چیئرمین ورکس کمیٹی کو ڈبل کیبن ویگو الاٹ کر دی۔ جس کے عوض چیئرمین ورکس کمیٹی نے مذکورہ عمارت کی مرمت، تزئین وآرائش کرانے کی منظوری دی۔ خیال رہے کہ کے ایم سی میں فنڈر نہ ہونے کی وجہ سے ضروری نوعیت کے کام بھی معطل ہیں۔