آئی جی پولیس اور حکومت کے تنازع کااختتام!

481

خبر ہے کہ آئی جی سندھ کلیم امام نے سال 2019ء میں 23 پولیس افسران کے خلاف کی گئی انکوائری رپورٹ سندھ سیفٹی کمیشن اجلاس میں پیش کردی۔ اس رپورٹ پر غور کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ رپورٹ نہیں بلکہ حکومت کے خلاف پولیس کے سربراہ کی طرف سے ان الزامات کی چارج شیٹ ہے جو حکومت نے آئی جی پر لگاتے ہوئے ان کے تبادلے کا فیصلہ کیا تھا۔ پولیس سربراہ نے سندھ سیفٹی کمیشن میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے بحیثیت انسپکٹر جنرل پولیس، پولیس کی کارکردگی، پولیس کے خلاف آنے والی شکایات پر انکوائری اور تحقیقات کرکے رپورٹیں حکومت کو بھیجنے کے حوالے سے اپنا اور اپنے ماتحت پولیس کا ’’مقدمہ‘‘ پروفیشنل پولیس آفیسرو وکیل کی طرح لڑا ہے۔ آئی جی کی جانب سے پیش کی گئی انکوائری رپورٹ میں گریڈ 21 کے افسر ایڈیشنل آئی جی غلام سرور جمالی کے خلاف تحقیقات بھی شامل ہے۔ کلیم امام نے اجلاس کو بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد (ریٹارئرڈ) کے خلاف بداخلاقی کی رپورٹ چیف سیکرٹری کو جولائی 2019ء کو بھیجی تھی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ گریڈ 19 کے ایڈیشنل آئی جی کرائم برانچ پرویز عمرانی کے خلاف الزامات کی رپورٹ سیکرٹری داخلہ کو جولائی 2019ء کو بھیجی گئی۔ گریڈ 19 کے ایس ایس پی ایسٹ اظفر مہیسر کے خلاف الزامات کی اسٹیٹمنٹ محکمہ داخلہ کو دسمبر 2019ء میں بھیجی۔ آئی جی نے اجلاس کو بتایا کہ گریڈ 19 کے ایڈیشنل آئی جی کرائم برانچ پرویز عمرانی کے خلاف الزامات سیکرٹری داخلہ کو جولائی 2019ء کو بھیجے گئے۔ گریڈ 20 کے افسر ذوالفقار شاہ (ریٹائرڈ) آر پی او سکھر کے خلاف الزامات کی رپورٹ چیف سیکرٹری کو دسمبر 2019ء کو بھیجی گئی۔ گریڈ 19 کے ڈی پی او سکھر اعتزاز گوریا کے خلاف الزامات سیکرٹری داخلہ کو دسمبر 2019ء میں بھیجے۔ گریڈ 18 کے افسر ایس ایس پی میرپور خاص جاوید بلوچ کے خلاف رپورٹ دسمبر 2019ء میں بھیجی گئی، اسی
طرح گریڈ 18 کے افسر اعجاز ہاشمی کے خلاف الزامات کی تفصیلی رپورٹ سیکرٹری داخلہ کو اکتوبر 2019ء کو بھیجی۔ ایس پی گلشن ڈویژن طاہر نورانی کے خلاف بداخلاقی کی تحقیقاتی رپورٹ چیف سیکرٹری کو بھیجی۔ آئی جی سندھ کے مطابق گریڈ 18 کے افسر کامران راشد کے خلاف الزامات کی رپورٹ سیکرٹری داخلہ کو اکتوبر 2019ء کو بھیجی گئی۔ ایس ایس پی ملیر رائو انوار خان (ریٹائرڈ) کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ چیف سیکرٹری کو جنوری 2018ء کو بھیجی گئی۔ جبکہ ڈی آئی جی آر آر ایف فاروق اعظم اور ایس پی نثار چنا کے خلاف ایس پی سی ٹی ڈی حیدرآباد یعقوب عالمانی، ایس پی انویسٹی گیشن سی ٹی ڈی کراچی مرتضیٰ بھٹو کے خلاف رپورٹ بھی جمع کرائی گئی۔ آئی جی نے اجلاس کو بتایا کہ پولیس افسران الطاف لغاری، فہیم فاروقی، ڈی ایس پی نیئر اور ڈی ایس پی دوست محمد منگریو کے خلاف رپورٹس بھی بھیجی گئیں۔
وزیر اعلیٰ نے آئی جی کی رپورٹ پر 5ارکان پر مشتمل کمیٹی قائم کردی۔ یہ کمیٹی کمیشن کے قواعد و ضوابط پر غور کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی میں 3 ایم پی ایز بیریسٹر حسنین مرزا، امداد پتافی اور شمیم ممتاز شامل ہیں۔ کمیٹی میں 2 آزاد ارکان کرامت علی اور حاجی ناظم بھی شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے آئی جی کو ہدایت کی کہ تمام ارکان نے جو تجاویز دی ہیں وہ منصوبے میں شامل کریں، پولیس آزادانہ کام کرے، ہماری اس میں کوئی مداخلت نہیں، سیفٹی کمیشن صرف پولیس کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کا جائزہ لے گا ان شکایات کے تدارک کے لیے کمیشن پولیس سے پوچھ گچھ کرے گا۔ مراد علی شاہ نے اجلاس کو بتایا کہ آئی جی کی جانب سے پیش کی گئی سالانہ پولیسنگ پلان کابینہ منظور کرے گی، پولیسنگ پلان کا ڈرافٹ کمیشن کے ذریعے موصول ہوچکا ہے۔
وزیراعلیٰ نے اجلاس کو بتایا کہ کراچی 2013ء میں عالمی کرائم انڈیکس میں چھٹے اور ساتویں نمبر پر تھا، کراچی اب ورلڈ کرائم انڈیکس میں 93 نمبر پر ہے، امن و امان کی صورتحال بہتر سے بہتر ہورہی ہے، اس میں حکومت کا عزم شامل ہے، امن کی بحالی میں کراچی کے عوام کی مدد شامل ہے۔ سیفٹی کمیشن اجلاس کو بتایا گیا کہ صحافی شکیل نائچ کی جانب سے ایس پی طاہر نورانی اور ایس پی ملیر کے خلاف شکایات آئی ہیں۔ جس پر آئی جی نے اجلاس کو تحریراً بتایا کہ ڈی آئی جی جاوید اکبر اس پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس کو بتایا کہ طاہر نورانی کے خلاف ملیر بار ایوسی ایشن کی بھی شکایات آئی ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ درخواست گزار ندیم احمد نے کمیشن میں درخواست دی ہے کہ ایس ایچ او کھارادر کو جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے سے روکا جائے۔ اس پر آئی جی پولیس نے تحریراً جواب میں کہا کہ اس معاملے کو انویسٹی گیشن سائوتھ زون ٹو کو بھیجا گیا ہے۔ سیفٹی کمیشن اجلاس میں اعلیٰ پولیس افسران کے زیر استعمال گاڑیوں میں ٹریکر نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پولیس کی موبائلز میں ٹریکرز پہلے سے نصب ہیں، بغیر ٹریکرز کے پولیس کی دیگر گاڑیوں کی تعداد 400 ہے۔ آئی جی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے تو وزیر اعلیٰ کرسی پر بیٹھے تھے، آئی جی نے مصافحے کے لیے وزیر اعلیٰ کی جانب ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے نشست سے اٹھ کر ان سے مصافحہ کیا۔ اجلاس کے اختتام پر آئی جی نے وزیر اعلیٰ کو سیلوٹ کیا اور روانہ ہوگئے۔
سیفٹی کمیشن کے اس اجلاس میں آئی جی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ پولیس کی مجموعی کارکردگی بہتر ہوئی ہے تب ہی کراچی میں امن و امان کی صورتحال 2013 کے مقابلے بہتر ہوئی ہے اور عالمی کرائم انڈیکس 93 نمبر پر پہنچ گیا جو چند سال پہلے تک پیپلزپارٹی ہی کی حکومت کے دور میں چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہوا کرتا تھا۔ اس اجلاس کی سب سے مضحکہ بات یہ تھی کہ اجلاس میں پولیس سربراہ آئی جی کلیم امام کے خلاف یا اس تنازع پر کوئی بات تک نہیں ہوئی۔ البتہ آئی جی نے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ان پولیس افسران کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہ کیے جانے کا اشارہ دے کر حکومت پر براہ راست تنقید کی۔ جواب میں وزیراعلیٰ نے کراچی میں امن و امان بہتر ہونے والے جرائم میں کمی کا کریڈٹ پولیس کو دینے کے بجائے اپنی حکومت اور عوام کو دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے تعاون سے جرائم میں کمی آئی ہے۔
پرونشل پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلیننٹ کمیشن کے اجلاس اسی طرح ہوتے رہے تو پورا یقین ہے کہ پولیس کے صوبائی سربراہ اور حکومت کے درمیان کبھی بھی تنازعات پیدا نہیں ہوںگے۔ بلکہ جس طرح آئی جی اجلاس میں پہنچ کر وزیراعلیٰ سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے اور وزیراعلیٰ نے کھڑے ہوکر ان کا ہاتھ تھام لیا اسی طرح اجلاس کے بعد رخصت ہوتے ہوئے مراد علی شاہ کو سیلوٹ کیا تو انہوں نے بھی کھڑے ہوکر ان کے سلام کا جواب دیا۔ گو کہ اجلاس سے یہ بات سامنے آئی کہ حکومت اور پولیس کے صوبائی سربراہ میں چلنے والا تنازع بالآخر ختم ہوگیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس کے ان افسران کے خلاف مزید کارروائی کیا کی جاسکے گی جن کے خلاف انکوائری اور تحقیقات کرکے رپورٹ کمیشن کے اجلاس میں آئی جی کلیم امام نے پیش کی۔