وقاص احمد
گوکہ کئی چیزیں مماثلت رکھتی ہیں لیکن پھر بھی کوئی نام نہاد مفکر، فلسفی یا کوئی مقبول راہنما و حکمران سمجھدار مسلمانوں کو فلاحی ریاست کے نام پر اسلامی فلاحی ریاست کے نہ خواب دکھا سکتا ہے نہ دھوکا دے سکتا ہے۔ اسلام کا مقصد دنیا میں اسکینڈنیوین ریاستوں کی طرز پر ریاست کا قیام نہیں تھا۔ اسلامی فلاحی ریاست اپنا ایک جداگانہ تشخص رکھتی ہے۔ تبھی یہ بیان اور فلسفہ فکری و علمی طور پر نامکمل اور ادھورا بلکہ اپنے بعض نتائج کے اعتبار سے گمراہ کن ہے کہ ریاست مدینہ کا قیام انسانی ہمدردی اور انصاف کی بنیاد پر ہوا۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ ریاست مدینہ کی بنیاد ایمانیات کے ایک ایسے نظام پر ہوئی جس نے انسانی ہمدردی اور عدل و انصاف کی وسعت، اْس کا پھیلائو اور حدود و قیود متعین کیے تو بات مکمل اور درست تسلیم کی جاسکتی ہے۔ اسلامی شریعت اور اس کی حکمت کا تھوڑا بہت بھی علم رکھنے والے یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسانی ہمدردی اور عدل و انصاف کے تقاضے ایمانیات یا ’’ورلڈ ویو‘‘ یا کائنات و انسان سے متعلق عقائد کے مختلف ہوتے ہی بدل جاتے ہیں۔ شرم و حیا کا مطلب بدل جاتا ہے۔ عورتوں، بچوں، اقلیتوں کے حقوق کی وسعت و حدود کے پیمانے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ سرمایہ اور محنت کے درمیان توازن اور اعتدال کے مفاہیم کچھ اور ہوجاتے ہیں۔ ایک خاندان میں مرد اور عورت کے کردار اور ان کے حوالے سے قوانین کا فرق پڑ جاتا ہے۔ انفرادیت اور اجتماعیت کے اصول بدل جاتے ہیں۔
غرض کہ انسانی ہمدردی اور انصاف تو ’’Relative‘‘ اصطلاحات ہیں جو سب سے پہلے اپنے ماخذ اور اساسات کا تعین چاہتی ہیں۔ یہ انسانی ہمدردی ہی کا ایک اصول ہے نا کہ ایک شخص جس نے کسی عورت کو زیادتی کے بعد قتل کیا اسے آپ دنیا کے تقریباً تمام ’’تہذیب یافتہ‘‘ ریاستوں میں سزائے موت نہیں دے سکتے۔ اسلام اس معاملے میں کچھ اور سوچ رکھتا ہے۔ اور یاد رکھیں! اگر کسی مسلمان کا اسلام کے کسی بھی مبرہن اور واضح حکم کے بارے میں یہ گمان بھی ہے کہ یہ ظلم پر مبنی سے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔ تو گزارش ہے کہ عدل و انصاف اور ہمدردی کی بات ضرور کی جائے لیکن اس کا رشتہ اگر ایمان سے نہیں جوڑا جائے گا تو معاذ اللہ انبیاء کرامؑ ہمیں صرف اور صرف سوشل ورکر لگیں گے جن کا مقصد وسائل اور سہولتوں سے بھری ریاست کا قیام تھا۔ بلاشبہ ایسی کوئی سوچ انسانی فلاح کے مفہوم اور اس حوالے سے انبیاء کرامؑ کے مقاصد بعثت کا عشر عشیر بھی نہیں۔
ریاست کی سطح پر پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست کا تشخص دینے کے لیے موجودہ حکومت اگر ریاستی سطح پر سمت بھی مقرر کردے تو یہ اس کا اس قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ گوکہ اس کے آثار بہت دھندلائے ہوئے رہتے ہیں۔ کیا کہا جائے جب اس حکومت نے سودی قرضوں کا جال مزید بچھا دیا ہے کہ کوئی نوجوان کوئی چھوٹا کاروباری بھی اس لعنت سے بچ نہ پائے۔ حالانکہ اسی جماعت کی حکومت کے پی کے میں شخصی سود کے خلاف قانون بنا چکی ہے۔ کم از کم بڑی بڑی دینی باتیں کرنے والے وزیر اعظم اس بات کا اعلان کردیں کہ حکومتی فنڈز سے اب صرف بلا سودی قرض ہی دیے جائیں گے۔ حاجیوں کے پیسے پر سود نہیں کھایا جائے گا۔ اسی طرح پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے فروغ پانے والی ثقافت اور تمدن کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا جاسکتا۔ سمت متعین کرنے کے لیے پیمرا کو حکم دیا جاسکتا ہے اور کئی ابتدائی نوعیت کی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں جو معاشرے میں انتہائی نوعیت کی بے حیائی اور ذہنی اور نفسیاتی دبائو کا باعث بن رہی ہیں۔ تفریح اور فن کے نام پر کئی موضوعات، مکالمے، اشعار اور لباس کے معاملات کو دولت اور منافع کے نشے میں چور اور اسے مزید وسعت دینے کی حرص میں مصروفِ عمل اقلیت کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جو یہ فضول نظریہ پیش کرتے ہیں کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری تو وہ چیزیں بناتی ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوام کی ایک بڑی تعداد تو گٹکا، چرس اور جوا بھی پسند کرتی ہے۔ ارباب اختیار اور صاحب ثروت لوگ جو اکثر صاحب عقل و خرد ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کب تک مضر ِ اخلاق و معاشرہ چیزیں بنا بنا کر اور اسے دکھا دکھا کر اپنے عقل اور خرد کے تباہ ہونے اور دولت کے ہوس میں مبتلا ہونے کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔ وزیر اعظم فوراً نیوز چینلز کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ چینلز کے لیے بھی ایک ضابطہ اخلاق بنانے کا اعلان کریں اور اس معاملے میں اپنے گھر میں بھی مشورہ کریں۔ جمہوریہ پاکستان کے ساتھ لگے ہوئے لفظ اسلام کا کچھ تو پاس رکھیں۔
اسی طرح وزارت مذہبی امور اور تعلیم کو راہنمائی دی جائے کہ قرآن حکیم کے موضوعات پر لیکچرز، سیمینارز، ورکشاپس اعلیٰ اور وسیع پیمانے پر منعقد کیے جائیں اور اس حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا پر جگہ اور وقت حاصل کرنے کے لیے پیسہ خرچ کیا جائے تاکہ قرآن کا پیغام پاکستان کے کونے کونے میں پھیل سکے اور حکومت کم از کم یہ تو دعویٰ کر سکے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نیکی کو پھیلانے اور برائی کے سدباب کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی، حرام خوری، کرپشن، عورتوں بچوں پر ظلم بڑھنے کا رونا تو صدر وزیرِاعظم سے لیکر ہر وزیر رو رہا ہے لیکن کیا کبھی عمران خان صاحب نے اپنی اس اہم ترین ذمے داری کی طرف بھی توجہ کی؟ یاد رکھیں وزیر اعظم صاحب اگر معاشی ترقی، ملکی استحکام اور عوامی فلاح کے حصول کی تگ و دو میں آپ خا لصتاً اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈال کر مغربی اقوام کی دنیاوی ترقی کے ماڈل کی پیروی کریں گے تو قرآن تو ان لوگوں کے بارے میں کئی مقامات (جیسے سورہ ھود آیت: ۱۵، ۱۶) پر یہی کہتا ہے کہ اگر تم دنیا ہی کی آسانیوں، سہولتوں اور عیش و آرام کے طالب ہو تو ہم وہ تم کو عطا کر دیں گے اور اس میں کمی نہیں رکھیں گے لیکن ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا اور صرف خسارہ ہوگا۔ اللہ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو قرآن حکیم اور سیرت طیبہ کے ذرّیں اصولوں کے مطابق لوگوں کی دنیاوی اور اخروی فلاح کے لیے کوشش و سعی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین