حفیظ شیخ کا طنز

255

مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے گزشتہ دنوں طنز کیا ہے کہ جن لوگوں کو آئی ایم ایف کے آفس کے کوریڈور میں گھسنے کی اجازت نہیں، وہ آئی ایم ایف سے معاہدوں پر اعتراض کر رہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے خود بھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہے ہیں۔ مشیر خزانہ ہوئے یا گورنر اسٹیٹ بینک ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی وکالت کریں اور پاکستان سے زیادہ اس کے مفادات کا تحفظ کریں۔ چنانچہ حفیظ شیخ کا یہ طنز غیر متوقع نہیں۔ لیکن بڑا نمایاں فرق جسے حفیظ شیخ بھول گئے وہ یہ ہے کہ اس اناڑی ٹیم کے کپتان عمران خان نے اقتدار ملنے سے پہلے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ خودکشی کر لی جائے۔ سابق حکمرانوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی چنانچہ اب تنقید تو ہو گی۔ ہم نہیں کہتے کہ عمران خان اپنے قول پر عمل بھی کریں کیونکہ ان کا کوئی قول شرمندۂ عمل نہیں ہوتا اور ان کا یو۔ٹرن لینا تو سب کو معلوم ہے۔ اس پر عمران خان فخر بھی کرتے ہیں کہ کوئی لیڈر یوٹرن لیے بغیر بڑا رہنما نہیں بن سکتا۔ عمران خان اپنے تئیں بڑے لیڈر بن چکے ہیں۔ اس مقام پر وہ ٹرن لیتے لیتے ہی پہنچے ہیں۔ لیکن لوگ اسے منافقت کہتے ہیں۔ اپنی بات سے پھر جانا بڑائی کی علامت نہیں، جھوٹا ہونے کی نشانی ہے۔ مدینے کی ریاست کے بانی نے تو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بھی جھوٹ بولنے کو نا پسند فرمایا ہے۔ لیکن مسلم ممالک کی حکومتوں کا سارا کاروبار ہی جھوٹ پر چلتا ہے۔ حفیظ شیخ عمران خان کی طرح ماضی کی حکومتوں پر طنز کرتے ہوئے یہ جملہ ضرور یاد رکھیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا خودکشی ہو گی۔ لیکن اب خوشی خوشی پوری قوم کے گلے میں پھندا ڈال دیا ہے۔ چند کروڑ ڈالر کے لیے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ اب اگلی قسط اور نئے مذاکرات، نئی شرائط۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے تمام معاہدے منسوخ کیے جائیں، حکومت ملک کی جمع پونجی آئی ایم ایف کے حوالے کررہی ہے۔ خودکشی حکمران تو کیا کریں گے، عوام کر رہے ہیں۔