ڈاکٹر شجاع صغیر صدیقی
قائد اعظمؒ اور دیگر بانیان پاکستان کی قربانی کا صلہ پاکستان کی صورت میں ملا۔ قائد اعظمؒ پہلے گورنر جنرل بنے تو وہ سرکاری خرچ پر چائے تک نہیں پلاتے تھے اپنا لہو دے کر پاکستان کو حاصل کرکے مضبوط بنا کر جانے والے قائدین کی عظمت کو سلام ہے پاکستان میں بگاڑ 1971ء کے بعد زیادہ ہوا اس پاکستان میں ایماندار افسران کی لائن لگی تھی گھر سے زیادہ دفتر کو وقت دیتے تا کہ ملک ترقی کرے مگر بھٹو صاحب کے بعد سے جو بگاڑ شروع ہوا وہ آج تک چل رہا ہے۔ بھٹو اپنی ذات میں ایماندار تھے مگر اُن کو طاقت کا نشہ لگ گیا تھا۔ انہوں نے کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کی، ضیا الحق کا دور قدرے بہتر تھا وہ ایک ایماندار محب وطن جنرل تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں سندھی بھائیوں کو نوازا گیا، بڑے بڑے عہدے اُن کو دیے جاتے اور کلرک اور نائب قاصد مہاجر کے نصیب میں آتی۔ ضیا الحق کے دور میں میرٹ پر نوکری مل جاتی تھی، کرپشن شروع ہوچکی مگر کم تھا فوج کا خوف تھا مگر جو بگاڑ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دور سے شروع ہوا اس نے تو کرپشن کے تمام ریکارڈ ہی توڑ کر رکھ دیے۔ ان کے دور میں تو میگا کرپشن اور وائٹ کالر جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں 40 چور موجود تھے۔ اُن کی شہادت کے بعد تو پارٹی میں ایسا بگاڑ آگیا جو رکنے کا نام نہیں لیتا۔ میاں صاحب، شہباز شریف اُن کے اہل خانہ تو کرپشن اور میگا کرپشن کا حصہ تھے، زرداری صاحب نے بھی 40 چوروں کو جمع کرکے اُن کو خوب نوازا۔
وائٹ کالر جرائم میں پکڑ آسان کام نہیں ہے، اس میں اصل مجرم مشکل سے پکڑ میں آتا ہے، ادارے اُس کو پکڑتے ہیں جس کے اُس کاغذ پر دستخط ہوتے ہیں اور وہ کوئی سرکاری افسر ہی ہوسکتا ہے۔ وہ دستخط نہیں کرتا تو نوکری سے جاتا ہے اور دستخط کردے تو ریاستی ادارے اُس کو پکڑ لیتے ہیں جب کہ جس کے کہنے پر کام کیا جاتا ہے وہ آزاد نظر آتا ہے۔ زرداری صاحب پر اب تک کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا۔ شاہد خاقان عباسی نے بھی وائٹ کالر کرائم کا سہارا لیا، ہمارے ملک میں جتنے بڑے ترقیاتی کام شروع ہوتے ہیں اُن میں رشوت پہلے ہی سے طے ہوجاتی ہے۔ ٹھیکے دار کام شروع کرنے سے پہلے ہی حصہ بانٹ دیتا ہے، یہ حصہ کئی لوگوں میں تقسیم ہوتا ہے یہ نظام ملک کے ہر سرکاری ادارے میں چل رہا ہے، یہ رقم وزیر اور مشیروں سے لے کر وزیراعلیٰ تک جاتی ہے۔ نیب کا محکمہ کوشش کررہا ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن بنایا جائے۔ مگر ہمارے ملک کے بااثر لوگ چہرے تبدیل کرنا جانتے ہیں جس طرح سے سعودی عرب کے فرمانروا سلمان نے اپنے ہی خاندان کے لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی کیا، ہم یہ کام نہیں کرسکتے؟ اس وقت ملک کی معاشی حالت بدترین ہے، ملک کو قرضے اُتارنے کے لیے ڈالرز کی ضرورت ہے، اربوں ڈالرز کرپشن کی نظر ہوچکے ہیں جن کی ریکوری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی کرپشن اپنے عروج پر تھی، سب سے بڑا اسکینڈل اُس وقت کا PTCL کی نجکاری تھی جس کے 800 ارب ڈالرز اب تک واجب ادا ہیں اس کے علاوہ KE کی نجکاری، ایم سی بی کی نجکاری، اسٹیل مل کی تباہی کے پیچھے پی آئی اے اور ریلوے کے نقصان کی بیک پر بھی حکومتی لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ ابن آدم وزیراعظم عمران خان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ 40 چوروں کے ٹولے سے نجات حاصل کریں، ایماندار لوگوں کو نزدیک لے کر آئیں، پرانے ایماندار افسران جو (Retired) کیوں نہ ہوگئے ہوں اُن کو (Contract) پر Advisor رکھ کر اُن سے کام لیا جائے۔ محمد محسن جو کے (EPB) جو بعد میں TCP بن گیا وہ اعلیٰ ترین دماغ کے محب وطن اور ایماندار انسان ہیں جو تجارت کے حوالے سے سب جانتے ہیں۔ ایوب خان کے دور سے لے کر میاں صاحب کے دور تک تجارت کے حوالے سے بے پناہ خدمت کی ہے یہ ایک آدمی نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے، ایسے باصلاحیت لوگ اللہ کے کرم سے زندہ ہیں ان کی خدمات ملک کی تعمیر و ترقی میں سنگ میل کی حیثیت ثابت ہوسکتی ہیں۔