عوام کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والی حکومت ہوش ربا مہنگائی کے باعث عوام، اپوزیشن، میڈیا اور اپنے ہی وزرا کے دبائو سے گھبرا گئی اور جلد بازی میں یوٹیلیٹی اسٹور کے لیے 15 ارب روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کردیا جس کے تحت ان اسٹورز پر اشیائے ضرورت مثلاً آٹا، دال، چینی، چاول، کھانا پکانے کا تیل اور دیگر اشیا رعایتی قیمتوں پر دستیاب ہوں گی اور اسی کے ساتھ ساتھ 2 ہزار یوتھ اسٹورز کھولے جائیں گے وہاں پر بھی یہ اشیا موجود ہوں گی اور آئندہ دو سال میں ان یوتھ اسٹورز کی تعداد پچاس ہزار ہوجائیں گی جہاں سے تربیت یافتہ نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے دیے جائیں گے۔ ان نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گی ساتھ ہی ساتھ یہ فیصلے کرنے والی کابینہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ آٹا اور چینی کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ان کی طلب و رسد میں توازن برقرار رکھا جائے گا۔ عمران خان کی حکومت عوام کو مطمئن کرنے اور تسلی دینے کے لیے اس سے پہلے بھی ایسے ہی خوشنما اقدامات کے بھاری بھرکم اعلانات کرچکی ہے۔ مثلاً ’’احساس‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا۔ اس کے بعد لنگر خانے بنائے گئے، غریب اور بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کے قیام کا اعلان کیا گیا جس میں سے ایک پناہ گاہ اسحاق ڈار کے گھر کو بنایا گیا۔ میڈیا پر اس کی بڑی بڑی تصویریں اور ویڈیوز دکھائی گئیں لیکن عدالت سے اس کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد اسی کے قریب میں ایک پارک کو پناہ گاہ بنانے کا سوچا جارہا ہے اور جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے اس وقت تک نجانے کیا صورتِ حال ہو۔ حکومت اس قسم کے کھوکھلے اقدامات اور بناوٹی اعلانات کے ذریعے کام چلا رہی ہے اور اپنا مذاق بنوارہی ہے۔ اس سے پہلے بھی مرغی، انڈے، بھینسیں اور دودھ کے اعلانات کرکے اپنی سبکی کراچکی ہے۔
جہاں تک یوٹیلیٹی اسٹورز کا معاملہ ہے تو کاغذوں میں ان کی تعداد 4 ہزار ہے اور یہ تمام کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں ہیں۔ ملک کی 60 یا 70 فی صد دیہی آبادی اس سہولت سے محروم ہے۔ ان اسٹوروں کو جو کمپنیاں اور ادارے مال فراہم کرتے تھے ان کے 13 ارب روپے کے بقایا جات ہیں اس وجہ سے وہ مال سپلائی کرنے کو تیار نہیں۔ چناں چہ تقریباً ایک ہزار اسٹورز بند ہوچکے ہیں اس پر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا یہ تین چار ہزار اسٹورز پورے ملک میں اشیائے ضرورت کی فراہمی کے لیے کافی ہوں گے اور آج کی تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ تمام اشیا ان اسٹورز پر موجود نہیں، مثلاً دال مسور اور بیسن کی کئی اسٹورز پر قلت ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین سستی اشیا کو کھلے بازار میں جا کر فروخت کرتے رہے اور مال بناتے رہے، معلوم نہیں اس کی روک تھام کے لیے حکومت نے کچھ سوچا بھی ہے یا نہیں۔ اسی وجہ سے وفاقی کابینہ کے کچھ ارکان نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا تجربہ کرنے کے بجائے حکومت کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر اسے رد کردیا گیا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا اگر عوام کو ریلیف دینا ہے، مہنگائی میں کمی کرنی ہے، روزگار کے مواقعے پیدا کرنے ہیں تو ایسے نمائشی، بناوٹی اور کھوکھلے اعلانات، اقدامات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا بلکہ عوام کی مایوسی اور اذیت میں اضافہ ہی ہوگا۔ اب یہ بات ہی کتنی تشویشناک ہے کہ پچھلے سال معیشت کی سست روی کے باعث 12 لاکھ لوگوں کا روزگار ختم ہوگیا۔ پچھلے دنوں اوورسیز انوسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FCCI) کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں معیشت میں ٹھیرائو اور سرمایہ کاری میں کمی کی چار وجوہات ہیں۔ (1) روپے کی قدر میں کمی (2) پالیسیوں اور اس کے عملدرآمد میں فرق (3) بڑھتا ہوا ٹیکسوں کا بوجھ (4) انتہائی بلند شرح سود۔ ملک میں موجود آزاد ماہرین معیشت کی رائے بھی اس سے ملتی جلتی ہے کہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور بلند شرح سود نے معیشت کو بالکل بٹھادیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں معیشت کا پہیہ رُک چکا ہے۔ چناں چہ جب تک معیشت میں خرابی پیدا کرنے والی بنیادی وجوہات کو دور نہیں کیا جائے گا ان نمائشی اقدامات سے عوام کا بھلا نہیں ہوگا۔