یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن حقیقتاً مسلم دشمن ہیں اور اب تک اسے چھپانے کے لیے جو نقاب انہوں نے پہن رکھی تھی وہ اُلٹ دی ہے۔ انہوں نے نہایت عیاری سے اپنی کابینہ کے واحد مسلم وزیر، وزیر خزانہ ساجد جاوید کو برطرف کردیا ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا گیا ہے کہ ساجد جاوید مستعفی ہوئے ہیں جو دو ہفتہ بعد اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے والے تھے۔ گزشتہ جولائی میں بورس جانسن نے ساجد جاوید کی تعریف کرتے ہوئے اپنی کابینہ میں وزیر اعظم کے بعد دوسرا بڑا عہدہ دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ نسلی اقلتیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ وزیر داخلہ کے عہدے پر ہندوستانی نژاد پریتی پٹیل کو مقرر کیا تھا۔ بورس جانسن کا کابینہ میں یہ ردوبدل انتقامی ردوبدل کہا جارہا ہے۔ کابینہ سے ان تمام وزیروں کو فارغ کردیا گیا ہے جو بورس جانسن سے اپنی رائے کا بے دھڑک اظہار کرتے تھے اور بریگزٹ کے سوال پر اپنے تحفظات میں پیش پیش تھے۔ پچھلے عام انتخابات میں بورس جانسن کو جو زبردست اکثریت حاصل ہوئی ہے اس کے پیش نظر بورس جانسن اپنے آپ کو قادر مطلق سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ چاہے وہ کتنے ہی اپنی پارٹی کے اراکین کو ناراض کرلیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
ملک کی مالی حکمت عملی پر بورس جانسن اور ان کے اعلیٰ مشیر ڈومنیک کمنگس، ساجد جاوید کے انداز فکر کے ہم خیال نہیں تھے اور ساجد جاوید جو ممتاز بین الاقوامی بینکوں سے وابستہ رہے ہیں اور اپنے تجربہ پر انہیں فخر ہے اپنی رائے کے اظہار میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ کابینہ کے اس ردوبدل کے موقع کو بورس جانسن اور کمنگس نے غنیمت جانا اور بڑے منظم طریقہ سے ان دونوں نے ایسی صورت حال پیدا کی کہ ساجد جاوید کو استعفا دینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہے۔ چنانچہ بورس جانسن نے ساجد جاوید کو اس شرط پر کابینہ میں رہنے کے لیے کہا کہ وہ اپنے تمام مشیروں کو برطرف کردیں جن کی جگہ دس ڈاوننگ اسٹریٹ کے مشیر تعینات کیے جائیں گے۔ ساجد جاوید کے لیے یہ بات ہتک آمیز تھی انہوں نے اس سے صاف صاف انکار کیا اور کہا کہ کوئی بھی خود دار وزیر یہ بات پسند نہیں کرے گا۔ لہٰذا اس صورت میں ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ کابینہ سے علٰیحدہ ہوجائیں۔ بورس جانسن جو چاہتے تھے وہ انہیں حاصل ہوگیا۔ بورس جانسن کے اعلیٰ مشیر ڈومینک کمنگس ساجد جاوید کی برطرفی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک عرصہ سے کوشاں تھے۔ گزشتہ اگست میں کمنگس نے ساجد جاوید کی پریس سیکرٹری سونیا خان کو اچانک برطرف کردیا تھا اور اس بارے میں ساجد جاوید سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے اُس وقت سے برابر دس ڈاوننگ اسٹریٹ اور ساجد جاوید کے درمیان کشیدگی جاری تھی جو اب اپنی انتہا کو پہنچ کر ساجد جاوید کی برطرفی کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔
ساجد جاوید پچھلے پچاس سال میں برطانوی کابینہ میں سب سے کم میعاد کے وزیر خزانہ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ وہ صرف 204 دن وزیر خزانہ رہے۔ ساجد جاوید کی جگہ بورس جانسن نے ہندوستانی نژاد رشی سونک کو وزیر خزانہ مقرر کیا ہے جو ناتجربہ کار مانے جاتے ہیں اور دراصل اسی بنا پر بورس جانسن نے انہیں وزیر خزانہ مقرر کیا ہے کہ وہ ان کی ہدایات پر بے چون و چرا عمل کریں گے اور وزارت خزانہ پر بورس جانسن کی گرفت مضبوط رہے گی۔ رشی سونک کا تعلق ہندوستان کے پنجابی خاندان سے ہے ان کی اہلیہ ہندوستان کے ارب پتی ناراین مورتی کی صاحب زادی ہیں۔ رشی سونک کٹر ہندو مانے جاتے ہیں انہوںنے 2015 میں دارالعوام کے رکن منتخب ہونے کے بعد بھگوت گیتا پر حلف اٹھایا تھا۔
ساجد جاوید کی برطرفی کے بعد بورس جانسن نے اپنی کابینہ میں دوسری مسلم خاتوں وزیر نصرت غنی کو بھی فارغ کردیا ہے وہ وزیر ٹرانسپورٹ تھیں۔ ان کی برطرفی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ پچھلے ایک عرصہ سے وقتاً فوقتاً بورس جانسن کی اسلام دشمنی عیاں ہوتی رہی ہے۔ 2005 میں ٹوری حامی جریدہ اسپیکٹیٹر میں بورس جانسن نے لکھا تھا کہ اسلامو فوبیا (اسلام دشمنی) دراصل اسلام کا قدرتی ردعمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ اسلام ہے۔ پچھلے دنوں جب ٹوری پارٹی میں اسلامو فوبیا کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا تو بورس جانسن نے وعدہ کر کے اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ اسپیکٹیٹر کے مضمون کے بعد انہوں نے برقع پوش خواتین کا ہتک آمیز انداز سے مذاق اڑایا تھا اور کہا تھا کہ برقع پوش خواتیں لیٹر بکس اور بینک ڈاکو نظر آتی ہیں۔ بورس جانسن کی کابینہ میں ردوبدل کے بعد اب اہم عہدوں پر ہندوستانی نژاد وزیروں کی تعداد وزیر داخلہ پریتی پٹیل سمیت چار ہوگئی ہے۔ بورس جانسن کی رائے ہے کہ بریگزٹ کے بعد ہندوستان سے تجارتی سمجھوتے کے سلسلے میں یہ وزرا ممد ثابت ہوں گے۔ بہت سے مبصرین کی رائے ہے کہ بورس جانسن جن کے پردادا ترکی کے مسلم وزیر تھے مسلم خاندن سے اپنے تعلق کے نشان کو یکسر مٹا دینا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔