ایک اور نوٹس، اللہ خیر کرے

342

سوشل میڈیا پر کسی جگہ پڑھا تھا کہ ناکوں یا کہیں بھی چوک چوراہوں پر کھڑی پولیس کو دیکھ کر احساس تحفظ کے بجائے اپنے لٹ جانے کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ بات اتنی غلط بھی نہیں تھی اس لیے کہ اگر روک لیے جائیں تو پھر آپ کچھ کہہ نہیں سکتے کہ جان کتنے میں چھوٹے گی۔ آج سے کم از کم بیس برس پہلے، سورج طلوع ہونے سے بھی قبل، میں کینٹ ریلوے اسٹیشن (کراچی) کی جانب ٹرین میں سوار ہونے جا رہا تھا۔ میرے پاس کوئی 7 ہزار کے قریب سرکاری رقم بھی تھی۔ بیس اکیس برس قبل یہ رقم بھی کافی ’’وزن‘‘ رکھتی تھی۔ اس کو میں نے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھا ہوا تھا۔ فلیٹ سے اترا، ٹیکسی پکڑی اور اپنا سامان اس میں رکھ کر کچھ ہی دور پہنچا ہوںگا کہ پولیس ناکہ لگائے کھڑی تھی۔ روکا، تلاشی لی، سامان کا بیگ پورا کھول ڈالا، میری نظر گھڑی کی سوئیوں پر تھی۔ وقت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ میں نے جیب سے ٹرین کا ٹکٹ دکھا کر کہا کہ مہربانی کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹرین نکل جائے۔ جواب کچھ نہ ملا البتہ اب ان کی نظر میری جیب پر پڑی جو غیر معمولی ابھری ہوئی تھی۔ کہا یہ کیا ہے، یہ کہہ کر انہوں نے سارے نوٹ نکالے جس پر مجھے سخت الجھن ہوئی، ان کو ایک ایک کرکے گنا۔ اتنی رقم ساتھ کیوں لیے پھرتے ہو، سوال کیا گیا۔ کہا سرکاری ہیں اور فیلڈ میں جاکر واپس جمع کرانا ہے۔ سروس کارڈ دیکھ کر رقم واپس کردی۔ جس آسانی اور مہربانی سے رقم کی واپسی ہوئی وہ میرے لیے نہایت طمانیت کا باعث تھی۔ سارے راستے میں پولیس کو دعائیں دیتا رہا اور اپنے دل میں ان کی جانب سے پیدا ہونے والی بد گمانیوں پر اپنے آپ کو کوستا رہا۔ تقریباً ڈیڑھ دن کی مسافت کے بعد جب میں فیلڈ پہنچا اور اکاؤنٹ میں رقم واپس کرنے سے قبل جب رقم کو گنا تو پورے 2 ہزار روپے کم تھے۔ میں نے اپنی جیبوں سے لیکر اپنے بیگ اور سوٹ کیس کا ایک ایک خانہ ٹٹول ڈالا مگر وہ ہوتے تو ملتے۔ وہ بت جو میں گزشتہ 36 یا 40 گھنٹوں سے اپنے ملک کی پولیس کے لیے اپنے ذہن میں تراشتا رہا تھا، ایک لمحے میں ریزہ ریزہ ہوکر بکھرگیا۔
یہ تو تھا وہ بت جو پولیس کی فنکاری کو پہلے نہ سمجھنے کی بنا کر میں اپنے ذہن میں تراش بیٹھا تھا اور آج بیس بائیس سال بعد ایک اور بت جس کو تراشنے کے بعد میں اس کو اپنا خدا بنا بیٹھا تھا، وہ بھی اس بری طرح پاش پاش ہوکر بکھر گیا ہے کہ اب دنیا کی ہر مورتی سے مجھے نفرت ہو کر رہ گئی ہے۔ خیال تو یہی تھا کہ شاید اب دکھ اور درد کے سارے دن ختم ہو جائیں گے۔ ہر جانب دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ اور خوشحالی کا ایسا دور شروع ہوجائے گا کہ جہاں تک بھی نظر جائے گی وہاں تک سکھ ہی سکھ کا دور دورہ ہوگا۔ لیکن لگتا ہے کہ حقیقت اور خواب، کسی بھی دریا کے ایسے دو کنارے ہیں جن کے نصیب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا لکھا ہی نہیں ہے۔
جس طرح پولیس کو کہیں بھی موجود پاکر انسان سانس کھینچ کر اور ڈائیں بائیں دیکھے بغیر کچھ اس طرح گزررہا ہوتا ہے جیسے پل صراط پار کر رہا ہو بالکل اسی طرح جب وہ یہ سنتا ہے کہ موجودہ حکومت اور بالخصوص موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے کسی بھی معاملے کا ’’نوٹس‘‘ لے لیا ہے تو دل پہلو سے نکل کر کنپٹیوں میں دھڑکنے لگتا ہے۔ شروع شروع میں تو ’’نوٹس‘‘ لینے کا اعلان کئی خوش گمانیاں ابھار جاتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح میں اپنے ساتھ پولیس کی مہربانیوں اور رقم کی واپسی پر خوش ہوا تھا لیکن جلد ہی اس بات کا علم ہو گیا کہ حکومت اور خاص طور سے ہمارے وزیر اعظم جس جس معاملے کا ’’نوٹس‘‘ لے لیتے ہیں وہ عوام کے لیے مزید ابتلا و آزمائش کا سبب بن جاتا ہے۔
ڈالر کی پرواز کا نوٹس لیا گیا تو اس کے مزید پر لگ گئے۔ پٹرول کی قیمتوں کا نوٹس لیا گیا تو صرف 40 روپوں کا اضافہ کر دیا گیا، بیجا ٹیکسوں پر نظر ڈالی گئی تو ہر شے پر ٹیکس میں اضافہ ہوگیا، نوکریوں کا اعلان کیا گیا تو کارخانے بند ہونا شروع ہو گئے اور بازارمسمار ہونے لگے، گھروں کی تعمیر کا حکم دیا گیا تو بنی بنائی بستیاں اجاڑی جانے لگیں، بسوں، ریل گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کے کرایوں کا نوٹس ان میں بے تحاشا اضافے کا سبب بن گیا، حج کے اخرات کے نوٹس لینے پر معلوم ہوا کہ اب ہمارے وزیر اعظم بھی اس لیے حج نہیں کر سکیں گے کہ ان کے گھر کا خرچہ ان کی 2 لاکھ تنخواہ میں بھی نہیں ہو پاتا اور مہنگائی کے خلاف جب نوٹس لیا گیا تو ضرورت کی ہر شے غریب انسان کی پہنچ سے دور ہو گئی۔ عالم یہ ہوگیا کہ جس طرح ناکوں، چوکوں، چوراہوں اور گلی کے موڑوں پر پولیس کو کھڑا دیکھ کر چھوٹے اور بڑے دونوں پر قابو پانا نہایت دشوار ہوجاتا ہے اسی طرح عوام جب بھی یہ سنتے ہیں کہ وزیر اعظم نے ملک کی کسی بھی بے اعتدالی، ظلم، زیادتی یا غریبوں پر ڈھائی جانے والی کسی بھی قیامت کا نوٹس لے لیا ہے تو یقین مانے عوام کے دل کی دھڑکنیں رکنے اور نبضیں ڈوبنے لگتی ہیں۔ غربت و افلاس کی چکی میں رات دن پیسے جانے والوں کے کلیجے منہ کو آنے لگتے ہیں۔
خبر گرم ہے کہ وزیرعظم عمران خان نے اشیائے خور ونوش میں ملاوٹ کیخلاف ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، وزیراعظم نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ ملاوٹ کے خاتمے کے لیے ایک ہفتے میں نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا جائے، دودھ، گوشت، چینی، دالوں جیسی اشیا میں ملاوٹ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ کسی کو یقین آئے یا نہ آئے لیکن جب سے اس ’نوٹس‘ کے اجرا کی خبر سنی ہے، رہا سہا حوصلہ بھی ساتھ چھوڑنے لگا ہے۔ اس سے پہلے کے سارے ’’نوٹسوں‘‘ نے مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان کی صورتِ حال اور سروں سے چھتوں کے سائے تک چھن لیے جانے کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے اس کے بعد اس بات کا گمان یقین کی حد تک ہو چلا ہے کہ اب شاید بازار میں کوئی شے بھی خالص میسر نہ ہو سکے گی اور لوگوں کو نقلی دودھ، مردار اور حرام جانوروں کا گوشت، برسوں پرانے گندم کے گھن لگے آٹے کی روٹیاں اور کوکر تک میں بھی نہ گلنے والے چاول اور دالیں کھانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اب تک کے سارے ’’نوٹسوں‘‘ کی روشنی میں یہ بات بالکل طے ہے کہ ہر وہ معاملا جس کو عمرانی دور حکومت میں عوام کے لیے بہتر بنانے کا اعلان کیا گیا، اس میں عوام کو سہولتوں کے بجائے ابتلا و آزمائشوں کے علاوہ اور کچھ بھی ہاتھ نہ آ سکا اس لیے حکومت کے موجودہ نوٹس لیے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی عوام میں سخت اضطرابی کیفیت کا پیدا ہوجانا کوئی ایسی بات نہیں جس پر کسی حیرت کا اظہار کیا جائے۔
تفصیل کے مطابق ’’وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اشیا کی قیمتوں اور ملاوٹ مافیا کیخلاف ایکشن لینے کے لیے جائزہ اجلاس ہوا، اجلاس میں وفاقی وزر اسد عمر، خسرو بختیار اور مشیر تجارت سمیت دیگر افراد نے شرکت کی، چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں پرائس کنٹرول، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری کے حوالے سے وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی‘‘۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو وزرا اور مشیران اس اجلاس میں شریک تھے کیا یہ وہی تمام لوگ نہیں جو ملک میں مہنگائی کے طوفان کو برپا کرنے کا سبب ہیں۔ یہی سب تو تھے جو وزیر اعظم کو اقتدار میں آنے سے قبل یہ سمجھایا کرتے تھے کہ ملک میں جو بھی مہنگائی ہے وہ مصنوعی ہے اور اگر ہم (یعنی آپ) اقتدار میں آ گئے تو نواز دور کی اس مہنگائی کا نہ صرف خاتمہ ہوجائے گا بلکہ دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہنا شروع ہوجائیں گی۔ ان سارے نوسربازوں سے اس بات کا جواب طلب کرنے کے بجائے آپ ان ہی سے یہ مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ ملک میں جس قسم کا بھی طوفانِ بد تمیزی مچا ہوا ہے اس پر نہ صرف بند باندھیں بلکہ ان کا سدِ باب بھی کریں۔ موجودہ حکومت کے اس بھولے پن کو دیکھتے ہوئے بس اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ
اب بھی پانی کی طلب کی تو سرابوں سے حبیب
اب تو یہ ریت کی دیوار گرادی جائے
ہم موجودہ وزیر اعظم پاکستان سے بس اتنی ہی گزارش کر سکتے ہیں کہ اب نہ تو نوٹس لیا کریں اور نہ ہی قوم کو امیدیں دلایا کریں اگر کر سکیں تو اتنی مہربانی کریں کہ کمان میں کھنچے تیرِ نیم کش کو چلاہی دیں تاکہ دل کی جو بھی خلش ہے وہ اپنے انجام کو جا پہنچے۔ بقول شاعر
ترے وعدوں پر کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے