اب ایک نیا شوشا

377

برادر اسلامی ملک تُرکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان دو دن کے دورے پر پاکستان آئے اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی سے بڑھ کر محبت کا اظہار کیا۔ اس وقت عالم اسلام قیادت کے لیے تُرکی کی طرف دیکھ رہا ہے جس نے کشمیر کے مسئلے میں بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنے کی بات کی ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ تُرکی واحد ایسا ملک ہے جہاں کے عوام پاکستانیوں سے محبت اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ دوسری طرف مسلم امّہ کی قیادت کے دعویداروں کا رخ پاکستان نہیں مسلمانوں کے بدترین دشمن بھارت اور اس کی انتہا پسند، دہشت گرد بی جے پی حکومت کی طرف ہے۔ عالم اسلام میں اتحاد تو ایک عرصے سے نظر نہیں آرہا لیکن اب واضح طور پر کئی بلاک بنتے نظر آرہے ہیں۔ او آئی سی تو اپنے ناکارہ ہونے کا ثبوت بارہا فراہم کر چکی ہے۔ اب ممکن ہے کہ تُرکی کی قیادت میں ایک مضبوط اتحاد عمل میں آئے گو کہ سعودی عرب اس اتحاد کا حصہ بننے سے گریز کرے گا اور امریکا کی نظر دیکھے گا۔ امریکا کبھی بھی مسلم ممالک کا مضبوط اتحاد نہیں بننے دے گا۔ بہرحال صدر تُرکی کی پاکستان آمد پر پوری قوم ان کی شکر گزار ہے لیکن گزشتہ جمعہ کو ابھی اس مہمان عزیز کا طیارہ پاکستان کی فضائی حدود سے باہر بھی نہیں نکلا ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان نے حسب عادت ایک اور شوشا چھوڑ دیا۔ جمعہ کو وزیراعظم ہائوس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’مولانا فضل الرحمن پر آرٹیکل۔6 کا مقدمہ چلنا چاہیے، انہیں حکومت جانے کی یقین دہانی کس نے کرائی، اس کی تحقیقات ہونی چاہیے‘‘۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف پر بھی غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بیٹے اسد الرحمن نے عمران خان کو چیلنج کیا ہے کہ ہمت ہے تو فضل الرحمن کے خلاف آرٹیکل۔6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلائیں۔ عمران خان کو یہ کھلا چیلنج قبول کر لینا چاہیے اور آگے بڑھ کر مقدمہ دائر کردیں ورنہ لوگ کہیں گے عمران خان میں اپنی بات پر عمل کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔ عمران خان کو اطمینان ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے گواہی میں بھی فوج کو پیش کیا ہے کہ اسے پتا ہے میں کتنی محنت کر رہا ہوں پھر بھی تنخواہ کم ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ عمران خان مولانا فضل الرحمن پر غداری کا الزام لگانے سے پہلے آئین کی شق۔6 پڑھ بھی لیتے اور کسی ماہر قانون سے سمجھ بھی لیتے۔ ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ مولانا فضل الرحمن پر آئین کے آرٹیکل۔6 کا اطلاق نہیں ہوگا۔ عمران خان جاننا چاہتے ہیں کہ مولانا کو حکومت جانے کی یقین دہانی کس نے کرائی۔ لیکن اس کا ثبوت کہاں ہے؟ 2014ء میں جب عمران خان نے تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا تھا تو ان کو بھی کسی نے یقین دہانیاں کرائی ہوں گی۔ عمران خان اس دھرنے میں اعلان کرتے رہے کہ ’’امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ امپائر کون تھا جس کی انگلی بہت بعد میں اٹھی۔ عمران خان کے وفادار اس کی تاویل یہ پیش کر رہے ہیں کہ امپائر سے ان کا مطلب کرکٹ والا امپائر تھا۔ کیا اسلام آباد میں دھرنا نہیں کرکٹ میچ ہو رہا تھا؟ یہ بھی عمران خان ہی نے کہا تھا کہ وزیراعظم ہائوس میں گھس کر وزیراعظم کو باہر نکالوں گا۔ سرکاری ادارے پی ٹی وی پر حملہ، بجلی کے بل جلا کر عوام کو سول نافرمانی پر اکسانا، ایک پولیس افسر کو مارنا، یہ سب کچھ اب ایک بار پھر دہرایا جارہا ہے اور یہ خود عمران خان کی وجہ سے جو سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کہہ ڈالتے ہیں جس کی تشریح اور تاویل و تفسیر کرنا صرف فردوس عاشق اعوان کی ہمت ہے جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی یہی کام کرتی رہی ہیں۔ محترم عمران خان کا کہنا ہے کہ چونکہ میں کرپٹ نہیں اس لیے فوج میرے ساتھ ہے اور میں فوج سے نہیں ڈرتا۔ وہ یہ بات پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ فوج کی ایجنسیوں کو سیاستدانوں کی کرپشن کا علم ہوتا ہے تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا۔ مولانا فضل الرحمن پر غداری کے مقدمے کی بات چند دن پہلے فواد چودھری نے کی تھی۔ اب شیخ رشید کہہ رہے ہیں کہ غداری کا مقدمہ چلانے کے بجائے فضل الرحمن کو ویسے ہی ’دھر‘ لیا جائے۔ دھر لینے کا کام تو سرکاری سطح پر ہو ہی رہا ہے، نیب اور کیا کر رہا ہے یا جو لوگ لاپتا ہیں انہیں بھی تو کسی نے دھر رکھا ہے۔ آرٹیکل۔6 میں یہ بھی ہے کہ آئین توڑنے والوں اور ان کا ساتھ دینے والوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ شیخ رشید آئین شکن پرویز مشرف کا جی جان سے ساتھ دیتے رہے ہیں اور عمران خان نے بھی غدار پرویز مشرف کو ووٹ دیا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس شخص پر آئین شکنی ثابت ہے اور آرٹیکل۔6 کا اطلاق ہو چکا ہے اس کو سزا ملنے پر تو آمر کے چاہنے والوں نے واویلا شروع کر دیا تھا اور اس بات کا امکان نہیں کہ پرویز مشرف کیفر کردار کو پہنچے۔ پاکستان میں اس کی لابی بڑی مضبوط ہے۔ عمران خان آٹا، چینی، مافیا میں اپنے اہم ساتھی جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کو صاف بچا گئے۔ کہتے ہیں تحقیقاتی رپورٹ میں ان کا نام نہیں لیکن اسی کے ساتھ رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے کر واپس کر دیا۔ وزیراعظم نے ذرائع ابلاغ پر پھر الزام لگایا کہ وہ جعلی خبریں اور بیان چلا کر مجھے بدنام کر رہے ہیں، میرے خلاف جھوٹی خبریں دوسرے ملک میں چلیں تو چینلز بند ہو جائیں۔ امریکا جیسے ملک میں صدر ٹرمپ کے خلاف خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں اور وہ سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ کیا بھارت میں نریندر مودی کے بارے میں ذرائع ابلاغ حقائق بیان نہیں کر رہے جس پر اس کا کہنا ہے کہ وہ گالی پروف ہو گیا ہے۔ عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ سے سب سے زیادہ فائدہ انہی کو پہنچا ہے۔ جب وہ اقتدار میں نہیں آئے تھے تو یہی ذرائع ابلاغ تھے جنہوں نے ان کے طویل ترین دھرنے کی کوریج کی تھی۔ عمران خان اگر اپنے دعوئوں میں کمی کر دیں اور جو کہیں اس پر عمل کی کوشش بھی کریں تو ذرائع ابلاغ کو ان سے دشمنی نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ معیشت اتنی ترقی کرے گی کہ دوسرے ممالک سے لوگ نوکریاں تلاش کرنے پاکستان آئیں گے۔ پہلے یہ بھی فرمایا گیا تھا کہ اتنے ڈالر آئیں گے کہ گننا مشکل ہو جائے گا۔ لاکھوں نوکریوں کی بات کرکے کہا گیا کہ یہ حکومت کا کام نہیں۔ ایک ارب درخت لگانے کا دعویٰ کس مرحلے میں ہے؟ ایک سال میں 20 لاکھ درخت تو لگ چکے ہوں گے۔ ممکن ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوں لیکن حکومت اور ذرائع ابلاغ میں سے کون زیادہ غیر ذمے دار ہے۔ اس بارے میں فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔ امید ہے کہ ایک دو دن میں مولانا فضل الرحمن پر غداری کا مقدمہ قائم ہو جائے گا۔سوال یہ ہے کہ صرف اتنا کہہ دینے پر کہ حکومت جا رہی ہے اور کسی نے یقین دہانی کرائی ہے تو کیا حکومت چلی گئی؟ کس بات کی تحقیقات ہوگی۔ عمران خان یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مولانا کا اشارہ مقتدر حلقوں کی طرف تھا چنانچہ وہ ایک اہم ادارے کو بدنام کر رہے ہیں۔ عمران خان نے اس حوالے سے فوج کا نام نہیں لیا لیکن خود اپنے آپ کو یقین دلایا ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ عمران خان کے اتحادی چودھری پرویز الٰہی مولانا کو منانے پہنچے تھے اور کچھ یقین دہانیاں کرائی تھیں جس پر دھرنا ختم کیا گیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے خود دھرنا ختم کرانے کے لیے کسی قسم کی یقین دہانی کو امانت قرار دے کر راز میں رکھا ہے۔ چنانچہ بہتر ہوگا کہ عمران خان اپنے اتحادی چودھری پرویز الٰہی سے معلوم کریں کہ کس نے اور کیا یقین دہانی کرائی تھی۔ عمران خان بھی اب اس امپائر کا نام بتا دیں جس کی انگلی اٹھنے کی بات کرتے تھے۔ کیا اب بھی کوئی امپائر ہے؟