کشمیر پر بھارت کو اردوان کا طمانچہ

305

بھارت کو تکلیف ہو اور اس کی جانب سے ردعمل ملے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ تیر نشانے پر لگا ہے۔ ترک صدر طیب اردوا ن کی پاکستانی پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریب جس میں انہوں نے کہا کہ کشمیر کی ہمارے لیے بھی وہی اہمیت ہے جو پاکستان کے لیے ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو بڑے زور سے لگی ہے۔ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان ادیش کمار نے کہا ہے کہ ترکی ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے کشمیر ہمارا ہے اور بھارت کا لازم و ملزوم حصہ ہے۔ بھارت کی جانب سے یہ دعویٰ تو ہمیشہ کیا جاتا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے لیکن اس وعدے کے ساتھ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ رجب طیب اردوان نے اتنا ہی تو کہا تھا کہ پاکستان کے موقف کے حامی ہیں یہ صرف ان کا موقف نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینا تمام آزاد ملکوں کا موقف ہے بھارت خود یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا تھا لیکن جب اسے یہ محسوس ہوا کہ استواب رائے کے نتیجے میں کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گا تو اس نے طاقت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش شروع کردی اور اب کئی برس سے وہ اس روش پر قائم ہے۔ 5 اگست کے اقدام کے نتیجے میں بھارت تمام حدود پھلانگ گیا ہے اور اب یہ کہتا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے بالکل غلط ہے اس موقف کو تسلیم کرنا بھی سرے سے غلط ہے کیونکہ بھارت کی 8 لاکھ سے زیادہ فوج کشمیریوں کے ساتھ مسلسل غیر ملکیوں والا سلوک کررہی ہے۔ اگر کشمیر اس کا ہے تو اپنے لوگوں کو غیر انسانی صورتحال میں سات ماہ سے رکھنے والا شاید پوری دنیا میں بھارت پہلا ملک ہوگا۔ پاکستانی قوم اور کشمیریوں کی جانب سے ترک صدر کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ حکمران تو اس قدر ٹھنڈے ہوچکے ہیں کہ کشمیر میں کچھ بھی ہوجائے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔