اعتراف کے بعد سزا بھی ہوتی ہے

272

وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی نے جرأتمندانہ بات کی ہے۔ انہوں نے بر سرعام تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی ہماری کوتاہی سے بڑھی ہے تحقیقات سے پتا چل رہا ہے کہ کس نے مہنگائی کرکے فائدہ اٹھایا۔ پیسہ بنانے والوں کو چھوڑیںگے نہیں ایسا نظام لائیںگے جس میں ہمیں پہلے سے علم ہوگا کہ کس چیز کی کہاں کمی ہورہی ہے۔ وزیراعظم نے یہ باتیں لاہور میں صحت کارڈز کی تقسیم کے موقع پر کہی ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر میڈیا پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ منظم منصوبہ بندی کے تحت حکومت مخالف مہم چلائی جارہی ہے پہلے عام آدمی سے پوچھتے ہیں کہ مہنگائی ہے خود کہتے ہیں کہ کدھر گیا نیاپاکستان اور پھر عام شہری برا بھلا کہتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کے ایک اعتراف نے بہت سی گتھیاں بھی سلجھا دیں۔ایک یہ کہ کوئی خفیہ ہاتھ نہیں ہے جو یہ مہنگائی کررہا ہے حکومت سے کوتاہی ہوئی ہے اور دوسرے یہ کہ حکومت کو مافیا بھی نظر آگیا۔ تیسرے یہ کہ اپوزیشن کی بات درست ثابت ہوگئی کہ مافیا وزیراعظم کے دائیں بائیں ہی ہے۔ وزیراعظم نے صرف اس کا اعتراف نہیں کیا کہ مہنگائی بڑھنے میں کوتاہی ہے بلکہ اس امر کا بھی اعتراف کیا ہے کہ میں وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی پیمرا سے انصاف نہیں لے سکا۔ یہاں سے وزیراعظم نے ایک اور یوٹرن لیا کہ سرکاری نوکریاں انسان کو سہل پسند بنا دیتی ہیں صلاحیتوں کو تباہ کردیتی ہیں۔ اب وزیراعظم کا وژن دیکھیں انہوں نے بتایا کہ کسی کو اندازہ نہیں پاکستان کتنا عظیم ملک بننے جارہا ہے۔ جناب آپ نے ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ کیا تھا جب سرکاری نوکریاں نہیں دیںگے تو ایک کروڑ ملازمتیں کہاں سے دیںگے۔ گویا ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ ختم سمجھا جائے۔ کیونکہ نجی شعبے میں ملازمتوں کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اس کی خوب خوب حوصلہ شکنی کی جاچکی ہے ہزاروں کی تعداد میں صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔ ایف بی آر نے جس انداز میں صنعتکاروں کو خوفزدہ کیا ہے اس طرح تو بھتا خور مافیا بھی نہیں کرتی تھی۔ وہ بھتا لیتی اور قتل کرتی تھی لیکن یہاں تو الزام لگایا گرفتار کیا اور جیل بھیج دیا پھر تحقیقات کرتے رہتے تھے۔ اس رویے نے ایمانداری سے کام کرنے والوں کو زیادہ خوفزدہ کیا ہے۔ دو نمبر کام کرنے والے بھی گھبرا گئے۔ اب جو سیاسی رہنما ملک میں نہیں ہیں ان کی فیکٹریوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں ان کے گھروں پر قبضے کیے جارہے ہیں۔ اسحق ڈار کے گھر کو مہمان خانہ بنایا جارہا ہے۔ گورنر ہائوس اور وزیراعلیٰ ہائوس کو مہمان خانہ کیوں نہیں بناتے۔ وزیراعظم نے مہنگائی میں اضافے پر کوتاہی کا اعتراف تو کرلیا ہے لیکن انہیں بتانے والا کوئی تو ہوتا کہ اعتراف کے بعد سزا کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ایسی غلطی جس کے بعد لوگوں کی نیندیں اڑ جائیں گھروں میں فاقے ہونے لگیں لوگ خودکشی پر مجبور ہوجائیں تو اس غلطی کا صرف اعتراف کافی نہیں ہوتا۔ ایک سزا تو یہ ہے کہ وزیراعظم خود استعفیٰ دیں اور کابینہ کے ان ارکان کا استعفیٰ بھی لے لیں جنہوں نے کوتاہی برتی۔ وزیراعظم نے حسب معمول اعلانات کی تکرار کی ہے ، نہیں چھوڑیں گے اور سزا دیںگے، جناب ضرور سزا دیں لیکن بتائیں کہ ایسا کب ہوگا، آپ نے ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس جانب ایک قدم بھی نہیں بڑھا یا گیا۔ اب یہ کہنا کہ میں نے ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا ایشین ٹائیگر نہیں ، تو جناب عوام یہی تو پوچھ رہے ہیں کہ کیا ایسی ہوتی تھی مدینہ کی ریاست؟ عمران خان نے میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ لیکن کیا وہ یہ بھول گئے کہ 2013ء سے 2018ء تک وہ خود بھی ٹی وی پر آکر حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ اس وقت بھی میڈیا یہی کررہا تھا لوگوں سے سوال پوچھتا اور پھر خود کہتا تھا کہ سارا ملک لوٹ کر کھا گئے۔ اسی میڈیا اور اسی سوشل میڈیا کی بدولت آپ کو مقبولیت ملی باقی کام نادیدہ قوتوں نے کیا اور یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ کون سی قوت ہے۔ یہ وہی قوت ہے جس نے فضل الرحمن کو اشارہ دیا تھا۔ وزیراعظم صاحب اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی عوام میںنہیں تھے اور اب تو بالکل نہیں ہیں چنانچہ ٹی وی پر مہنگائی کی بات سننے کے بعد عام آدمی کو کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیں برا بھلا کہتا ہے۔ جناب وہ عام آدمی تو آپ کی زبان سے ، مشیر خزانہ، مشیر تجارت، وزیروں کی فوج اور معاونین خصوصی کی فوج کی زبان سے روز یہی سن رہا ہوتا ہے کہ ملک ترقی کررہا ہے بہت عظیم بننے جارہا ہے۔ لوگ باہر سے آکر یہاں نوکریاں کریںگے لیکن لوگ اس پر کیوں یقین نہیں کرتے۔ ٹی وی چینل والوں کے دو جملوں پر کیوں یقین کرلیتے ہیں؟ اس لیے کہ عام شہری کو آٹا مہنگا مل رہا ہے، چینی مہنگی مل رہی ہے، پیٹرول، ڈیزل، گیس، دوائیں، کپڑے، خوراک سب کچھ مہنگا مل رہا ہے جب سب کچھ مہنگا مل رہا ہوگا تو وہ ٹی وی چینل کے اس سوال پر کہ کہاں ہے نیا پاکستان؟ کیوں یقین نہ کرے۔ وزیراعظم نے ایک بات اور کہی ہے کہ میں پیمرا سے انصاف نہیں لے سکا۔ اس ناکامی پر وہ کسی اور کو کیا کہیں گے اس پر تو انہیں بھی شرمندہ ہونا چاہیے۔ لیکن حکومتی معاون خصوصی محترمہ فردوس عاشق اعوان کا رویہ بھی خوب ہے ایک طرف ان کا وزیراعظم غلطی کا بلکہ غلطیوں کا اعتراف کررہا ہے اور دوسری طرف وہ سندھ اسمبلی کی رکن کے قتل پر فرمارہی ہیں کہ پیپلزپارٹی اپنی رکن اسمبلی کو تحفظ نہیں دے سکی یہ عوام کو کیا تحفظ دے گی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ رکن اسمبلی اپنے رشتہ داروں کے گھر میں تھی وہاں قتل ہوا ہے ہر وقت سیکورٹی اہلکار سروں پر مسلط نہیں رہ سکتے لیکن اگر مولا بخش چانڈیو، قادر پٹیل یا رانا ثنا اللہ جیسے کسی لیڈر نے سوال پوچھ لیا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کا بانی اپنے عزیز دوست نعیم الحق کا علاج نہ کرسکا تو کیا جواب دیںگے یہ وزیر مشیر وغیرہ ۔ وزیراعظم صاحب وقت تیزی سے گزررہا ہے خرابی بھی بڑھ رہی ہے، اپنا قبلہ جتنا جلد درست کریںگے معاملات اتنی جلدی درستی کی طرف جائیںگے۔ ورنہ سب قوتیں حکومت کو جہاں لے جانا چاہتی ہیں حکومت بھی اس میں تعاون کرکے انجام سے جلد قریب ہورہی ہے۔