ملاوٹ‘ کہاں کہاں ہے؟

220

اخبارات میں شائع ہونے والے کالم کے لیے موضوع کا انتخاب بہت مشکل ہوجاتا اگر اس ملک میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور حکمرانوں کے بیان شائع ہونا بند ہوجائیں‘ یہ کام اس لیے نہیں ہوسکتا کہ دنیا بھر میں اظہار رائے کا حق تسلیم کیا گیا ہے‘ اگرچہ یہ حق پاکستان میں استعمال کرنا ذرا مشکل ہے‘ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں‘ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے‘ ان کے سیکڑوں بیانات ہیں جنہیں کالم کا موضوع بنایا جاسکتا تھا‘ تاہم ان کے منصب کا تقاضا ہے کہ اسی لیے انہیں کچھ رعایت ملتی رہی اور ابھی بھی مل رہی ہے۔ حال ہی میں ان کا بیان شائع ہوا ہے کہ ملاوٹ کے خلاف حکومت سخت کارروائی کرنے جارہی ہے‘ جب بھی ملاوٹ کا ذکر آئے گا تو ذہن عموماً اشیائے خورو نوش کی جانب ہی جاتا ہے لیکن ملاوٹ کیا صرف اشیائے خورو نوش ہی میں ہے؟ سیاسی جماعتوں میں ملاوٹ نہیں؟ ہارس ٹریڈنگ‘ سیاسی مفادادت کے لیے ایک جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت میں شامل ہوجانا اور تین چار سال گزار کر اس پر تین حرف بھیج کر ا س سے الگ ہوجانا‘ یہ سب کیا ہے؟ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے ملاوٹ کے خلاف کارروائی کا آغاز تحریک انصاف سے کریں کہ کتنے ہیں وہ لوگ جو محض اس میں اس لیے شامل ہوئے کہ اسے اقتدار ملنے کا یقین تھا‘ وہ کتنے ہیں جو آغاز میں تحریک انصاف کے منشور کی وجہ سے عمران خان کے ساتھ تھے مگر وہ سب آج موقع پرست سیاسی کارکنوں کی اڑائی ہوئی دھول میں کہیں نظر بھی نہیں آرہے‘ موقع پرستوں کی اکثریت آج پارلیمنٹ میں ہے اور تحریک انصاف کا مخلص کارکن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
اشیائے خورونوش جن میں دودھ‘ بیسن‘ میدہ اور مصالحہ جات سب شامل ہیں‘ ان میں ملاوٹ کا سدباب ضرور ہونا چاہیے کہ ریاست مدینہ کے سربراہ آقائے دو جہاںؐ کا یہ کھلا اور بڑا ہی واضح فرمان کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘ ہاں ان لوگوں کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے جو چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے لیے ہی عارضی طور تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں بے شمار ایسے نام ہیں جو سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں‘ اس کے باوجود ہمارا میڈیا انہیں معتبر سیاسی کارکن کے طور پر اہمیت دیتا ہے‘ یہی لوگ ٹاک شوز میں جاتے ہیں‘ انہی کے گھڑے گھڑائے بیان شائع کیے جاتے ہیں‘ وزیر اعظم کو ضرور سیاسی ملاوٹ کی جانب توجہ دینی چاہیے‘ ابھی حال ہی میں بلاول زرداری کا بھی ایک بیان شائع ہوا ہے کہ اگر گرفتار ہوا تو آصفہ ان کی آواز ہوں گی‘ سیاسی جماعتوں میں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ان میں منشور‘ دستور اور اجتماعی لیڈر شپ کہیں نظر نہیں آتی‘ سیاسی وراثت کی آکاس بیل نے سیاسی جماعتوں کو جکڑ رکھا ہے۔
بھٹو صاحب نے بھی اپنی صاحب زادی بے نظیر بھٹو کی سیاسی تربیت کی تھی‘ لہٰذا پارٹی میں بھٹو کے بعد ان کی صاحب زادی بے نظیر بھٹو اور ان کے بعد اب ان کے صاحب زادے بلاول نے پارٹی کی کمان سنبھالی ہے‘ یہی حال مسلم لیگ(ن) کا ہے نواز شریف کے بعد مریم نواز ہیں اور ان کے بعد ہوسکتا ہے کہ جنید صفدر آجائے اور ان کا نام جنید نواز رکھ دیا جائے‘ ملک میں کام کرنے والی سیاسی اور دینی جماعتوں میں صرف ایک جماعت اسلامی ہے‘ جس کی قیادت مولانا مودودی کے بعد ان کی اولاد کو منتقل نہیں ہوئی لیکن جماعت اسلامی میں بھی قیادت کے انتخاب کا جو معیار اس کے دستور نے دیا ہے اس پر پوری طرح عمل کیا جائے۔تاہم اس کے باوجود یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ جماعت اسلامی میں موروثی سیاست کا عمل دخل نہیں ہے یہ اس کی تنظیم کی ایک اعلیٰ خوبی ہے تاہم یہ خوبی آگے بڑھنی چاہیے اور جماعت اسلامی کی قیادت کو عالمی اسلامی تحاریک کی لیڈر شپ بھی بننا چاہیے‘ تاکہ مسلم دنیا کو اس وقت جن خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے اس کا ٹھوس اور پائیدار حل پیش کرسکے۔
پاکستان کو اس وقت جن خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے ان میں لبرل ازم سب سے آگے ہے‘ دینی جماعتوں کو اس بارے میں قومی سطح پر بحث و مباحثہ کرانا چاہیے‘ یہ چیلنج مسلسل سر اٹھا رہا ہے‘ ہم جنس پرستی کا شور بھی اس وجہ سے ہے‘ ملک کی پارلیمنٹ‘ سیاسی اور دینی جماعتوں کو یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘ یہ لبرل ازم بھی ایک ملاوٹ ہے جو ہمارا معاشرہ اس چکی میں پس رہا ہے‘ پارلیمنٹ میں اس پر خوب کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ اس کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اساس سامنے رکھ کر اس کی نظریاتی پہچان کی حفاظت کے لیے فیصلہ بھی پارلیمنٹ ہی میں ہونا چاہیے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوں اور ملک کو درپیش خطرات کے مقابلے کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل بنائیں‘ دلیل کے مقابلے دلیل لائی جائے‘ تشدد کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا‘ یہ کام اس وقت ہوسکتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ قومی مفاد کو ملک کے بنیادی نظریاتی اساس کی روشنی میں دیکھیں گی‘ برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی سیاسی بصیرت کی روشنی میں الگ مسلم ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں عدل‘ انصاف اور یکساں معاشی مواقع ملیں گے اور کوئی کسی کا استیصال نہیں کر سکے گا‘ اشیائے خورو نوش اور سیاسی جماعتوں میں موقع پرستوں کی ملاوٹ اور سیاسی جماعتوں میں ملوکیت بھی استیصال کی شکل ہے۔