نریندر مودی اس وقت مقبولیت اور بھاری مینڈیٹ کے باعث ہوا کے گھوڑے پر سوا ر ہیں۔ وہ طاقت کے اُڑن کھٹولے پر فضائوں میں محو پرواز ہیں۔ ان کی سیاسی نظر امریکا چین اور پاکستان جیسے عالمی مسائل سے نیچے ٹکتی ہی نہیں۔ اروند کیجریوال سیاست سے بے نیاز دھان پان سا انسان جس کی نظر پانی، صحت اور تعلیم جیسے قطعی مقامی مسائل سے اُٹھتی ہی نہیں۔ شخصیات اور نظریات کے اس تضاد کے ساتھ دہلی کے انتخابی معرکے میں ’’عام‘‘ آدمی نے بھارت کے ’’خاص‘‘ ہی نہیں خاص الخاص آدمی کو بدترین شکست سے دوچار کر دیا۔ انتخابات میں اروند کیجریوال کی قیادت میں ستر میں سے اٹھاون نشستیں حاصل کیں جبکہ بھارتیا جنتا پارٹی کے حصے میں صرف نو سیٹیں آئیں۔ دہلی میں حکومت سازی کے لیے چھتیس سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی یہ ہدف حاصل کرکے تیسری بار حکومت سازی کی پوزیشن میں آگئی ہے۔
دہلی کا انتخابی معرکہ سر کرنے کے لیے بھارتیا جنتا پارٹی نے طاقت اور تحریص کا بھرپور استعمال کیا۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر اعلیٰ یوپی یوگی ادتیا ناتھ نے دہلی میں ڈیرے ڈال کر ووٹروں کو لبھانے کی بھرپور کوشش کی مگر دہلی کا ووٹر ان کے جھانسے میں نہ آیا۔ دہلی اس وقت مودی کی مزاحمت کا مرکز ہے۔ جامعہ ملیہ بھی یہیں ہے جہاں امیت شاہ کے حکم پر پولیس نے طلبہ وطالبات کو پرامن مظاہروں کے حق سے محروم کیا۔ نہرو یونیورسٹی بھی یہیں ہے جہاں طلبہ وطالبات کی تحریک اور لہجے کے باعث بھارتیا جنتا پارٹی کی قیادت کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ بھارت کی سیاست کوکنہیا کمار اورکشمیری سیاست کو شہلا رشید جیسے دبنگ سیاسی کارکن اور نئے چہرے اسی تعلیمی ادارے نے فراہم کیے۔ یہ نوجوان بھی کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کی تحریکوں میں اُبھر کر سامنے آئے۔ یہاں مسلمانوں کا تہذیبی مرکز جامع مسجد بھی ہے اور نظام الدین اولیاء اور قطب الدین بختیار کاکی جیسے بزرگان دین کے مزارات بھی ہیں۔ اس شہر پر مسلمانوں کے صدیوں کے اقتدار کی چھاپ تہذیبی آثار کی صورت میں نمایاں اور گہری ہے۔ اسی شہر میں راشٹرپتی بھون کی عمارت بھی ہے جہاں نریندر مودی اپنے تمام متعصبانہ فیصلے بھی کرتے ہیں اور یہیں ان فیصلوں کے ردعمل کی سب تازہ اور توانا علامت شاہین باغ بھی ہے جہاں مسلمان خواتین اپنے بچوں کے ساتھ سردی گرمی کی پروا کیے بغیر ایک بڑے احتجاجی کیمپ میں دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔
یہ سوال تو قبل ازوقت ہے کیا دہلی کی شکست تکبر اور نخوت سے بھرے نریندر مودی کے انجام کا آغاز ہوگی؟۔ ایسا ہو بھی ہوسکتا ہے۔ مودی نے ہندو قوم پرستی کو پورے عروج پر پہنچا کر پورا سیاسی فائدہ سمیٹ لیا ہے اب اس سے آگے جانے کی کوئی صورت باقی نہیں۔ طاقت کی کمزوری کے ابدی اصول کی مطابق اب اس عروج کے ردعمل پیدا ہونے اور ان کے فروغ پزیر ہونے کا مقام اور مرحلہ آچکا ہے۔ بھارتی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق اروند کیجریوال کی جیت کا بنیادی محرک عوامی بھلائی کے کام ہیں۔ انتخابی کامیابی کے بعد منحنی سے کیجریوال نے نہایت سادہ انداز میں کہا کہ ہمیں تو راج نیتی آتی ہی نہیں ہمیں تو کام آتا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ مودی کے شر اور ڈر سے آزاد ہوتے مسلمان ووٹر کے اجتماعی فیصلے کو بھی اس جیت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شاہین باغ میں بیٹھی خواتین اور جامعہ ملیہ کے پٹتے ہوئے طلبہ نے مسلمان ووٹر کا ڈر بڑی حد تک دور کر دیا ہے۔ شاہین باغ کو نفرت اور خوف کا نشانہ بنانے کی کوشش بھی پوری طرح کی گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ شاہین باغ والے نکل کر دہلی کی عورتوں کا ریپ کریں گے۔ دہلی کا انتخاب جیتنے کے لیے بی جے پی نے ’’پاکستان‘‘ کے نام کا آزمودہ نسخہ دوبارہ آزمانے کی کوشش کی۔ ان انتخابات پر نظر رکھنے والے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ مودی کابینہ کے ایک وزیر نے یہ تک کہا کہ عام آدمی پارٹی کو ووٹ دینے کا مطلب پاکستان کو ووٹ دینا ہے۔ ایک اور وزیر کا کہنا تھا کہ اروند کیجریوال کو ووٹ دینا دہشت گردوں کو ووٹ دینے کے مترادف ہے اور یہ غداری ہے۔ جس پر اروند کیجریوال نے اپنے روایتی معصومانہ انداز میں ایک جلسے میں لوگوں سے پوچھا کہ میں کیا آپ کو دہشت گرد دکھتا ہوں؟ اور عوام نے اس سوال کا جواب قہقہے کی صورت میں دیا۔
شاہین باغ سے دھرنا ختم کرنے کے لیے احتجاجی مہم بھی منظم کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ سب اکارت ہوا۔ ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ جیسے گھٹیا نعروں کی سرپرستی کرکے مظاہرین کو دھمکایا گیا اور عملی طور پر دوبار دہلی میں مظاہرین پر گولی چلائی گئی مگر اس بار ہندو قوم پرستی کا سودا دہلی کی حد فروخت نہ ہو سکا۔ مسلمان علاقوں میں ووٹروں نے پوری قوت کے ساتھ بھارتیا جنتا پارٹی کو مسترد کیا۔ بھارتیا جنتا پارٹی نے اپنی پاور بیس کو مضبوط کرنے کے لیے دہشت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ سب سے زیادہ مسلمان ووٹرکو خوف کا شکار کیا گیا۔ مسلمان ووٹر زیادہ تر کانگریس کے ساتھ کھڑا رہتا تھا اور کانگریس سے ناراض ہو کر کسی دوسری جانب بھی لڑھک جاتا تھا اور یہ عمل انتخابی پلڑے کے اتار چڑھائو میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا تھا۔ بھارتیا جنتا پارٹی نے مسلمان ووٹر کو ڈر کا شکار بنا کر اس سے یہ متحرک کردار چھین لیا تھا۔ اب گزشتہ کئی انتخابات میں مسلمان ووٹر کھل کر اپنی اجتماعی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرسکا مگر شہریت کے متنازع قوانین کے بعد بھارتی مسلمانوں نے خوف کی چادر اتار کر پھینک دی ہے اور یہ عمل مسلمان ووٹر کا ماضی کا فعال کردار بحال کرنے پر منتج ہو سکتا ہے۔ مودی نے طاقت کے نشے میں جو راستہ اختیا ر کیا ہے اس کا ردعمل ہونا لازمی ہے۔ سوا ارب آبادی کا ملک نریندر مودی کے اشارہ ابرو پر رقص نہیں کرسکتا۔ جلد یا بدیر سامنے آنے والے ردعمل کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ اگر نریندر مودی کے سیاسی زوال کا آغاز بھی ہوتا ہے تو اس کا مطلب بھارت کا زوال نہیں۔ پاکستان اور کشمیر کے نقطہ ٔ نظر سے بھارت میں معاملہ افراد اور چہروں کا نہیں ریاست کی معاندانہ روش اور متعصبانہ پالیسیوں کا ہے۔ کانگریس ہو یا بھارتیا جنتا پارٹی ہر دور میں پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا نہیں چلا۔ اس لیے بھارت کی سیاست کے زیر وبم پر نظر رکھنی تو چاہیے مگر اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔