اندرون سندھ لا قانونیت عروج پر

312

سندھ میں ایک اور صحافی کوخلاف شان بات کہنے کی پاداش میں موت کی نیند سلادیا گیا ۔ محراب پور کے صحافی عزیز میمن کا قصور بس اتنا تھا کہ انہوں نے بلاول زرداری کے ٹرین مارچ کی اصل تصویر پیش کردی تھی کہ ٹرین مارچ میں کرائے کا ہجوم جمع کیا گیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ انہیں وعدے کے مطابق محنتانہ بھی نہیں دیا گیا تھا ۔ یہ سب انٹرویو کی صورت میں موجود تھا جو سندھی زبان کے ٹی وی چینل کے ٹی این پر نشر بھی ہوا تھا ۔ بس اتنا سننا تھا کہ سندھ کے آقا سیخ پا ہوگئے ۔ پہلے عزیز میمن کو دھمکیاں دی گئیں اس پر بھی عزیز میمن نے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ مقابلہ کرنے کی کوشش کی ۔ مقابلے کے لیے عزیز میمن اسلام آباد بھی گیا اور مختلف وڈیو کلپس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ دھونس اور دھمکی دینے والوں کے نام بتارہا ہے ۔ نہ تو کسی عدالت نے عزیز میمن کو تحفظ کی چھتری فراہم کی اور نہ ہی پیپلزپارٹی کی مخالف وفاقی حکومت نے ۔اور یوں عزیز میمن کو انتقام کی آگ میں دہکتے ہوئے اور سبق سکھانے کے زعم میں مبتلا سندھ کے وڈیروں کے آگے نہتا چھوڑ دیا گیا ۔ بلاول زرداری کی مقبولیت کو مشکوک بنانے کے جرم میں عزیز میمن کو اتوار کو گلا گھونٹ کر ماردیا گیا ۔ ایک صحافی کو قتل کیے ہوئے دو دن گزر گئے ہیں ، قاتلوں کو گرفتار کرنا تو دور کی بات ہے ابھی تک اس قتل کی پولیس نے ایف آئی آر تک درج نہیں کی ہے ۔ عزیزمیمن کا قتل اپنی قسم کا سندھ میں کوئی پہلا قتل نہیں ہے ۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ ایک نیورو فزیشین ڈاکٹر ذوالفقار منگی کو بھی اسی جرم میں ماردیا گیا کہ انہوں نے علاقے کے وڈیروں کے ظالمانہ طرز عمل کے خلاف ایک وڈیو بیان دیا تھا ۔ ڈاکٹر ذوالفقار منگی کنسلٹنٹ تھے اور کراچی کے ایک معروف اسپتال کی اچھی تنخواہ چھوڑ کر علاقے کے لوگوں کی خدمت کے جذبے سے گئے تھے مگر علاقے کے وڈیرے نے ڈاکٹر ذوالفقار منگی کو بھی نہیں چھوڑا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اندرون سندھ کی کیا صورتحال ہے کہ صحافی اور ماہر ڈاکٹر بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ عام آدمیوں کا ان وڈیروں نے کیا حال کیا ہوا ہوگا ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے صحافی عزیز میمن کے قتل میں بلاول زرداری کا نام آیا اور ڈاکٹر ذوالفقار منگی کے قتل میں منظور وسان کا نام آیا مگر ان میں سے کسی کا بھی نام ایف آئی آر میں درج نہیں اور نہ ہی ان دونوں افراد نے ابھی تک اپنی براٗت کا اعلان کیا ہے ۔ سندھ میں عملی طور پر یا تو ڈاکو راج ہے یا پھر ان کے سرپرست وڈیروں کا راج ہے جنہوں نے اسکولوں کو او طاق میں تبدیل کیا ہوا ہے اور عوام کو اپنے غلاموںکا درجہ دیا ہوا ہے ۔ ان غلاموں کا جنسی اور معاشی دونوں طرح کا استحصال کیا جاتا ہے اور کوئی ان کے خلاف آواز بلند کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ آکسفورڈ اور کیمبرج میں تعلیم پانے والے بھٹو اور زرداری خاندان کے افراد کی روشن خیالی یہاں پر آ کر دم توڑ دیتی ہے ۔ آوارہ کتوں کے خلاف مہم پر تو بختاور زرداری تڑپ جاتی ہیں مگر ان بے گناہوں کے قتل پر بختاور کی آنکھ بالکل نم نہیں ہوتی ۔ جب تک قاتل ہاتھوں کے ساتھ قتل کا حکم دینے والی زبانوں کو سزا نہیں ملے گی ، اس وقت تک اسی طرح ظلم کا بازارگرم رہے گا ۔ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ کب تک یوں ظالم بے لگام رہیں گے ۔