اختلاف پر غداری کے مقدمات کا کھیل

206

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ اور عوامی ورکرز پارٹی کے خلاف غداری و دہشت گردی کے مقدمات خارج کردیے۔ عدالت نے ریمارکس دییے ہیں کہ 25 افراد کے احتجاج سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ریاست اور عدلیہ اتنی کمزور نہیں کہ کسی نعرے بازی یا بات کرنے سے اس کی بنیادیں ہل جائیں۔ حکومت نے یہ مقدمات واپس لے کر اچھا اقدام کیا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ توقع ہے کہ حکومت آزادیٔ اظہار پر قدغن نہیں لگائے گی۔ آئین لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کی اجازت دیتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے آپ کو ریاست اور اختلاف کرنے والوں کو غدار تصور کیا ہوا ہے۔ یہ حکمران فوجی ہوں، مسلم لیگی ہوں، پیپلز پارٹی والے ہوں یا سب کے لوٹوں کو جمع کرکے بنائی جانے والی حکومت۔ سب خود کو ریاست اور اختلاف کو غداری قرار دیتے ہیں۔ اگرکسی نے نعرہ لگا بھی دیا کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے تو اس سے کیا فرق پڑ جاتا ہے۔ ایسی باتوں سے ریاست کی بنیادیں نہیں ہل سکتیں۔ جب حکمران اپوزیشن کو دشمن کا ایجنٹ کہتے ہیں اور اپوزیشن حکمرانوں کو آئی ایم ایف اور امریکا کا ایجنٹ تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس رویے کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ اختلاف رائے پر کسی کو ملک دشمن ہی قرار دے دیا جائے۔ آج کل مولانا فضل الرحمن کے خلاف غداری کے مقدمے کی باتیں ہو رہی ہیں ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی زمانے میں دہشت گردی کا مقدمہ بنانے کا فیشن تھا۔ ہر کسی کے خلاف دہشت گردی کی دفعات ڈالی جاتی تھیں۔ کبھی القاعدہ سے تعلق جوڑا جاتا تھا اور کبھی داعش سے۔ پاکستان میں بھی یہی کھیل ہو رہا ہے۔ ایم کیو ایم دہشت گرد ہے اس کے بانی غدار ہیں لیکن ان کے چہیتے حکومت اور اسمبلیوں میں، یہ کیا مذاق ہے۔