جناح یونیورسٹی میں ناچ گانے کی تیاری

542

ایک افسوسناک خبر منگل کے اخبار جسارت میں شائع ہوئی ہے جس کے مطابق جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں ناچ گانے کے پروگرام کی تیاری کی جارہی ہے۔ جامعہ کی ویب سائٹ پر یہ اشتہار چلایا جا رہا ہے کہ اگر آپ تعلیمی زندگی سے بور ہو گئے ہیں تو جناح یونیورسٹی آپ کے لیے دلچسپ شام کا اہتمام کر رہی ہے جس میں کنسرٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس اعلان پر جناح یونیورسٹی کی طالبات کے والدین نے احتجاج کیا ہے۔ یہ معاملہ محض ایک یونیورسٹی کا نہیں ہے بلکہ پاکستان میں مغربی این جی اوز اور مغرب کے ذہنی غلام حکمران ایک ایجنڈے کے تحت خواتین اور طالبات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کراچی کے کئی تعلیمی اداروں میں طالبات کو رقص و سرود کی محفلوں کی زینت بنانے کا عمل جاری ہے۔ کبھی یہ شکایت بیکن ہائوس، کبھی سٹی اسکول اور کبھی گرامر اسکول سے ملتی ہے۔ گلستان جوہر کے اے ای ایس اسکول سے بھی شکایت سامنے آئی ہے۔ اے ای ایس اسکول میں تو ایک ایک ہفتے تک تقریبات ہوتی ہیں جن میں بھارتی اور پاکستانی فلمی گانوں کے ذریعے اخلاق تباہ کیے جاتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی اگلی نسل کو کہاں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ بیشتر حکمران بھی اسی قسم کے ہیں اور ان کو اس میں کوئی عیب بھی نظر نہیں آتا ہے۔ طلبہ یونین کے زمانے میں طلبہ و طالبات کو صحت مند تفریح بھی ملتی تھی اور انہیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع بھی ملتا تھا۔ طلبہ یونینوں کو دہشت گردی اور تشدد کا سبب قرار دینے والے حکمران بتائیں کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کو موسیقی کی محفل کی زینت بنانے کا نتیجہ کسی تشدد سے کم ہے کیا۔ حیرت سے خود تو مخلوط محفلوں اور ناچ گانے کے رسیا ہوتے ہیں قوم کی بیٹیوں کو بھی اسی راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ فوری بند ہونا چاہیے۔