ٹھکانے ختم، دہشت گردی باقی

314

وزیراعظم عمران خان نیازی نے پاکستان میں عسکریت پسندی کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا ہیٓ کہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی تک عسکریت کے خاتمے کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم ہوگئے ہیں۔ اس تضاد کے ساتھ ایک اور متضاد بات کہی ہے کہ افغان مہاجرین کے بہت سارے کیمپ ہیں ان کیمپوں سے چند ہزار عسکریت پسندوں کو کیسے پکڑ سکتے ہیں۔ اگر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم ہو گئے ہیں تو افغان مہاجرین کے کیمپوں کا کیا قصور۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ماضی کا کچھ نہیں کہہ سکتا اس وقت تمام ادارے ایک پیج پر ہیں اور افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ اب عالمی ادارے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی سنیں وہ کہتے ہیں کہ افغان مسائل کا حل افغانستان ہی میں ہے۔ پاکستانی قوم پھر وزیراعظم کے بیان سے ابہام کا شکار ہوگئی ہے کہ مسئلہ ہے کہاں۔ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم ہو گئیں تو پریشانی کس بات کی ہے۔ عمران خان چند ہزار دہشت گردوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں تو لاکھوں لوگوں کو نکال کر چند ماہ میں امن قائم کرنے کا کارنامہ انجام دے چکی ہے۔ کہا تو اس وقت بھی یہی گیا تھا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کر دی گئی ہیں۔ ان کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ ان لوکھوں لوگوں کو چند ہفتوں میں نکالا گیا اور چند دنوں میں واپس بھی پہنچایا گیا تھا۔ یہ الگ کارنامہ تھا لیکن بہرحال پاکستانی ادارے یہ کام کر چکے ہیں تو چند ہزار مبینہ افغان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں کیا امر مانع ہے۔ ویسے کیا وزیراعظم بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دہشت گردی میں لازماً افغان ہی ملوث ہیں۔ پینتیس سال تک کراچی اور حیدرآباد میں جو عسکریت پسند تھے کیا وہ لوگ بھی افغان مہاجرین کے کیمپوں سے آئے تھے ان کو تو وزیراعظم نفیس ترین لوگ کہتے ہیں اور آج کل ان کے گرویدہ ہیں کراچی کا اگلا میئر تحریک انصاف سے لانے کے لیے ان سے دوستی بھی کرنے کو تیار ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل صاحب خود بھی کچھ کنفیوز ہیں ایک جانب کہتے ہیں کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہونا چاہیے اور اسی لمحے کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کو تیار ہوں۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہونا ضروری ہے تو ثالثی کا کیا سوال۔ پھر پاکستان کی اقوام متحدہ کے لیے خدمات پر پاکستان کو پیسے دینے کی بات بھی کی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کی کوششوں کے مقابلے میں عالمی تعاون بہت کم رہا، دنیا آگے بڑھے۔ انہوں نے پاکستانی قوم کے بارے میں کہا کہ اس کے الفاظ اور عمل میں درد ہے۔ لیکن سیکرٹری جنرل صاحب کو حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ یہ درد تو اقوام متحدہ کی دو رخی کی وجہ سے ہے۔ کشمیر کے 72 سال پرانے قضیے کو چھوڑ کر اقوام متحدہ نت نئے مسائل حل کرنے میں چابکدستی دکھاتا ہے۔ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور ہوتا ہے اس کی ایک تازہ مثال وزیراعظم کا مہاجرین کے بارے میں بیان اور مہاجرین سے متعلق عالمی کانفرنس کے موقع پر کوئٹہ میں دہشت گردی کا واقعہ ہونا جس میں دو پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد شہید ہوئے۔ وزیراعظم کو اچانک افغان مہاجرین سے متعلق خاص سمت والا بیان کس نے لکھ کر دیا۔ یہ اس قسم کا بیان ہے جو جنرل پرویز دیا کرتے تھے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مہاجرین کے بارے میں عالمی کانفرنس کے موقع پر یہ دھماکا کیوں ہوا اور وزیراعظم افغان مہاجرین پر کیوں برسنے لگے۔ یہی کام جنرل پرویز بھی کرتے تھے اور بے نظیر بھٹو کے قتل پر بھی یہی کوشش کی تھی کہ کام افغانوں نے کیا ہے۔ اپنی ناکامی کا الزام دوسروں پر ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اگر بھارت کی دہشت گردی پر بھی یہی کہتے رہے تو ایک دن بقیہ کشمیر بھی بھارت ہڑپ کر جائے گا اور ہمارے حکمران زبانی جمع خرچ کرتے رہیں گے۔