غریب شہر تو فاقے سے مرگیا

353

ڈاکٹر شجاع صغیر خان
آج مہنگائی بام عروج پر ہے، غریب تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ بلکہ عوام مر رہے ہیں۔ میں تو برسوں سے لکھ رہا ہوں، زرداری کا دور ہو یا نواز کا میں نے ہر دور میں قلم کا حق ادا کیا ہے۔ تبدیلی ہماری قوم کو راس نہیں آرہی ہے، مہنگائی کے خلاف پورے ملک میں جماعت اسلامی اور این جی اوز مظاہرے کررہی ہیں۔ 20 جنوری کو اخبارات میں شائع ہونے والی خبر دل دہلانے والی ہے۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا جن بے قابو، کراچی کے ایک اور محنت کش کی خودکشی، حکومت ناکام، صرف دعووں تک محدود، سرجانی ٹائون یارو گوٹھ میں 3 بچوں کا باپ بچوں کی بھوک کی تڑپ نہ دیکھ سکا۔ غربت اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرلی، دوران علاج غریب نوید دم توڑ گیا۔ ظفر عباس بھی ہر مسئلے پر دل کھول کر بولتا ہے، میرا رشتہ دار نہیں مگر کام کرنے والوں کا کام خود بولتا ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے حکومت پر الزام لگایا کہ حکومت نے مہنگائی روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ حکومت نے عوام کو مسائل کے دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ آج آٹے اور چینی پر ایک بحران آیا ہوا ہے۔ بڑے کمال کی بات یہ ہے کہ ہم گندم اور چینی کی پیداوارا میں خود کفیل ہیں۔ آٹے کے بحران کے حوالے سے ملک کے تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اس بحران میں حکومت کی نااہلی، کرپشن، بدنیتی سب کارفرما ہیں۔ صوبائی وزیر سندھ ہری رام کشوری راما کے مطابق ایک لاکھ بوریاں کراچی پہنچ گئیں۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ سندھ نے گندم کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن کی ہدایت دی اور کہا کہ جلد صوبے میں جاری گندم اور آٹے کے بحران پر قابو پالیا جائے گا۔ صوبائی وزیر سندھ سعید غنی کہتے ہیں کہ 10 دن تک ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال رہی جس کی وجہ سے آٹے کا بحران آیا ہے جلد قابو پالیں گے۔ حلیم عادل شیخ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سندھ حکومت والے گندم مہنگی ہونے پر فروخت کردیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ایک ملین ٹن گندم سندھ میں آچکی۔ دوسری طرف خیبرپختونخوا میں نان بائیوں نے ہڑتال کردی تھی۔ اُمید ہے کہ جلد یہ بحران ختم ہوجائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس سلسلے میں سخت احکامات جاری کردیے ہیں۔
ایک اہم مسئلہ جس کا اب تک کوئی حل سامنے نہیں آسکا اُس پر بات کرنے سے پہلے ایک غربت کی ماری خبر بتاتا ہوں کہ شریف آبادمیں کم عمر ڈاکواسٹور میں واردات کے لیے داخل ہوئے انہوں نے کیش کو ہاتھ نہیں لگایا، انہوں نے آٹا، دالیں، مصالحے لوٹ لیے اور جاتے ہوئے کہا کہ ہمیں معاف کردیں ہم نے بے حد مجبوری میں واردات کی ہے۔ یہ واقعہ بے حد اہم اور لمحہ فکر ہے۔ حکومت کو اپنی آنکھوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ اب فقیر یا بھکاری پیسے نہیں مانگتا، اللہ کے نام پر راشن دلوادو، دودھ دلوادو، گوشت دلوادو، مرغی دلوادو۔ ہم کس طرف جارہے ہیں، حکومت نام کی چیز کیوں نظر نہیں آتی، جب کہ ایماندار وزیراعظم ملک میں موجود ہے جو کرپشن کے خلاف ایک جنگ لڑ رہا ہے اس جنگ میں ان کے ساتھ جو لوگ کام کررہے ہیں وہ بھی داغ دار ہیں، ان کو گمراہ کررہے ہیں اس وقت ضرورت ایک ایماندار کابینہ کی ہے۔ وزیرایماندار ہوگا تو اُس کے ماتحت محکمے بھی ٹھیک ٹھیک چلیں گے۔ جب محکمہ کو پتا چلے گا کہ ہمارا وزیر کرپٹ ہے تو وہ اُس کو اُس کا حصہ پہنچادیں گے اور محکمہ آزادی کے ساتھ کرپشن کے سمندر میں ڈوبا رہے گا۔ اس وقت بہت سے ادارے جو غیر سرکاری ہیں جن کو ہم این جی اوز کہتے ہیں اُن کے لنگر خانے شہر میں جاری ہیں، امریکا سے میرا دوست چند ضرورت مند گھرانوں کے لیے راشن کے پیسے بھیجتا ہے۔ میرے استاد کئی گھروں کی کفالت کررہے ہیں۔ کینیڈا سے دو افراد غریب مریضوں کی ادویات کا خرچ ادا کرتے ہیں۔ میرے اپنے دوست خدمت خلق میں لگے ہیں۔ بابر اسماعیل بھی خدمت خلق میں بہت آگے ہیں۔ سندھ حکومت اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی۔ پرائس کنٹرول کے 6 ادارے غیر موثر، آٹا، دودھ، چینی، سبزی کچھ بھی مقررہ قیمت پر دستیاب نہیں، عوام مہنگائی کے خلاف احتجاج کریں یہ مشورہ دے رہے ہیں۔ ہمارے محترم کمشنر کراچی میں فروخت ہونے والی یا سندھ میں فروخت اشیا آپ کے مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہورہی ہیں بالکل نہیں۔ ایک تو پورے شہر میں غیر معیاری گوشت فروخت ہورہا ہے، ایک علاقے میں گوشت 360 روپے اور ایک علاقے میں 600 روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے، قصائی اپنی دکان کے باہر روڈ پر گائے ذبح کرتا ہے تا کہ لوگ دیکھتے ہوئے جائیں اور وہ من مانے پیسے وصول کریں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ عوام کی فلاح وبہبود پر توجہ کریں، عوام کو غربت سے نجات دلائیں، عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔