سندھ کا ضلع نوشہرو فیروز اُداس اور صوبے ہی کے نہیں بلکہ ملک بھر کے صحافی شدید غم و غصے کی کیفیت میں ہیں۔ نوشہرو فہروز کی 17 لاکھ کی آبادی غم زدہ ہے اس لیے کہ اس چھوٹے سے ضلعے کی خاتون رکن اسمبلی شہناز انصاری اور ممتاز صحافی عبدالعزیز میمن گزشتہ ہفتہ اور اتوار کو یکے بعد دیگرے 24 گھنٹے میں قتل کردیے گئے۔ نوشہروفیروز میں صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں ایک نشست ہے۔ اس ضلع کی رہائشی و خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی رکن صوبائی اسمبلی شہناز راجپر انصاری کو 15 فروری کو دن دھاڑے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ شہناز انصاری کے قتل کے صرف 24 گھنٹے بعد ہی اسی ضلع کے نامور صحافی عزیز میمن بھی مردہ حالت میں نہر کے قریب پائے گئے ان کے جسم پر گردن کے قریب الیکٹرونکس وائر پڑی ہوئی تھی، جس سے یقین کی حد تک شبہ ہورہا ہے کہ نامعلوم افراد یا فرد انہیں قتل کرکے لاش نہر کے قریب چھوڑ گئے تاہم حتمی بات پوسٹ مارٹم کے بعد ہی پتا چل سکے گی۔ فی الحال تو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ 17 لاکھ کی مختصر آبادی والے ضلع میں وہاں کی ایک ایم پی اے کے بعد ایک صحافی بھی جان گنوا بیٹھا۔ یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا گڑھ کہلاتا ہے مگر یہاں پیپلز پارٹی کے ووٹرز ہی کیا مقامی رہنما بھی محفوظ نہیں ہیں، امن و امان اور عدم تحفظ کی یہاں بھی وہی صورتحال ہے جو پورے صوبے کی ہے۔ یہاں صرف ’’بھٹو‘‘ زندہ ہے۔ 4 اپریل 1979 وہ دن ہے جب بھٹو کو موت کی سزا دی گئی۔ مگر ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے کی گونج میں بھٹو کی پارٹی کی ایم پی اے شہناز راجپر انصاری سرے عام قتل کردی گئی۔ پھر 24 گھنٹے بعد عزیز میمن کی ہلاکت اور ان کی لاش نہر کے قریب ملنے کی اطلاع آگئی۔ ایک ایسے ضلع میں جہاں خاتون رہنماء کی ناگہانی موت کا سوگ منایا جارہا ہو، پولیس رکن اسمبلی کے قتل کے واقعے کے بعد مزید کسی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے چوکنا ہوگی، وہاں ایک اور شخص کی اس طرح کی ہلاکت یقینا غیر معمولی اور باعث حیرت واقعہ نہیں تو اور کیا ہے۔
صحافی عزیز میمن کی لاش نہر کے قریب گہرائی کی طرف بندھی ہوئی حالت میں کس طرح مل سکتی ہے یا وہ مردہ حالت میں یہاں کیسے آسکتے ہیں۔ یقینا انہیں تشدد کرکے ’’ادھ مری‘‘ حالت میں کسی نے پہنچایا ہوگا یا پھر ہلاکت کے بعد یہاں لاش پھینک گئے ہوںگے!۔ سوال یہ ہے کہ جب ضلع بھر کی پولیس الرٹ تھی تو یہ واردات کیسے ہوئی، عزیز میمن کو کیوں اور کیسے ہلاک کیا گیا؟
رکن اسمبلی شہناز انصاری کے قاتل تو نامعلوم نہیں ہیں اس لیے امکان ہے کہ پولیس انہیں گرفتار کرلے گی بلکہ اطلاعات کے مطابق ان کے قتل کے دو ملزمان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ پولیس شہناز انصاری کے قتل سے قبل ان کی درخواست پر انہیں تحفظ فراہم کرتی۔ وہ تو سندھ پبلک سیفٹی و پولیس کمپلینٹ کمیشن کی رکن بھی تھیں۔ مگر ان کی شکایت پر توجہ نہیں دی گئی۔ یہاں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے مگر حکمرانی پارٹی کے مرکزی رہنما کے دوستوں کی ہے۔ وہ دوست جو سب کچھ کراسکتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ وقت پڑنے پر وہ آئی جی سندھ کے تبادلے کی حکومتی کوششوں کو بھی ختم کراسکتے ہیں۔ خیر یہ حکومت اور ان کے غیر حکومتی رہنمائوں اور ان کے دوستوں کا مسئلہ ہے مجھے اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ فوری طور پر تو میں صرف اپنے صحافی بھائی عزیز میمن کے قتل کے معاملے پر پریشان ہوں۔ اس پریشانی میں میں عزیز میمن کی وہ ویڈیو ریکارڈنگ بھی دیکھنے پر مجبور ہوا جو انہوں نے چند ماہ قبل اسلام آباد کے صحافی دوستوں سے بات چیت کرتے ہوئے ریکارڈ کرائی تھی۔ عزیز میمن کو اس ویڈیو میں یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ: ’’میں عزیز میمن ہوں، میرا مسئلہ یہ ہے کہ بلاول زرداری کے ٹرین مارچ کے موقع پر محراب پور اسٹیشن پر مارچ کے پہنچنے سے قبل میں نے ایک اسٹوری کی تھی جس میں، میں نے ٹرین مارچ کے لیے خواتین اور مردوں کو کرائے پر لانے کا انکشاف کیا تھا، اس اسٹوری کے بعد سے ایس ایس پی نوشہرو فیروز اور پیپلز پارٹی کے بعض جیالے انہین دھمکیاں دے رہے ہیں‘‘۔ عزیز میمن کا کہنا تھا کہ ان کا پی ٹی آئی سمیت کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے اور وہ کسی کے خلاف نہیں، بس وہ صحافی ہیں اور آزادانہ رپورٹنگ کرتے ہیں۔ عزیز میمن نے بلاول زرداری کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان کا تحفظ کریں۔ عزیز میمن کو ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے کہ ’’جس دن سے میں نے یہ اسٹوری کی کہ ٹرین مارچ کے لیے فی کس دو ہزار روپے دینے کا وعدہ کرکے خواتین اور مردوں کو لایا گیا تھا مگر صرف 2 روپے فی کس دیے گئے، مجھے مقامی جیالے، علاقے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او میرے بچوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں، اس لیے میرے بچوں اور میرا تحفظ کیا جائے‘‘۔ یہ ویڈیو چند ماہ قبل اس وقت کی ہے جب عزیز میمن اور ان کے خاندان کو دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ تاہم ان کے قریبی لوگوں کو کہنا ہے کہ ابھی چند روز قبل ہی صحافی عزیز میمن اپنے گھر محراب پور آگئے تھے۔ وقوعہ والے روز انہیں کسی نے کھانے پر بلایا تھا جس کے لیے وہ اپنے ساتھی کیمرا مین کے ساتھ گھر سے نکلے تھے۔ یقین ہے کہ پولیس اور دیگر اداروں نے مقتول عزیز میمن کی اس ویڈیو کو بھی اپنی تحقیقات کا حصہ بنایا ہوگا۔ لیکن تحقیقات کیا اسی پولیس سے کرائی جارہی ہے جن پر عزیز میمن کو دھمکیاں دینے کا الزام لگایا تھا۔
اس ضلع کے ایس ایس پی سمیت سب ہی متعلقہ لوگ عزیز میمن کے قتل کے حوالے سے مشکوک ہیں کیونکہ مقتول نے پہلے ہی اپنی ویڈیو کے ذریعے ان پر دھمکیوں کا الزام لگادیا تھا۔ ایم پی اے شہناز انصاری اور صحافی عزیز میمن کے قتل کے واقعات کے بعد سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں خوف پھیلا ہوا ہے ساتھ پیپلز پارٹی کی حکمرانی پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ لیکن کیا ان دونوں واقعات میں ملوث ملزمان سمیت اصل کرداروں کو بھی سامنے لایا جاسکے گا؟ جس ملک اور صوبے میں جمہوریت کی آڑ میں سب کچھ خلاف قانون کیا جاسکتا ہو وہاں قانون کی نہیں قانون شکنوں کی حکمرانی ہوتی ہے اور ان سے صرف اللہ ہی وقت آنے پر نمٹتا ہے۔