کیا کراچی لا وارث ہے؟

344

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ، کوئی گاؤں یا جنگل نہیں کہ 14 افراد جان سے گئے، ہزاروں افراد متاثر ہوئے اور پتا ہی نہ چلے کہ اس کی وجہ کیا تھی ۔ چار روز گزر چکے ہیں ، بندرگاہ کے ساتھ گنجان آبادی کے رہائشیوں سمیت پورا کراچی ہی خوف و ہراس کا شکار ہے ، لوگ مسلسل متاثر ہورہے ہیں اور کارکردگی یہ ہے کہ ادارے تو ادارے ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں ۔ صرف اس ایک واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں خدانخواستہ کوئی قدرتی آفت ٹوٹ پڑے تو ارباب اقتدار اس کا مقابلہ کس طرح سے کریں گے ۔ تدارک تو دور کی بات ہے ،ابھی تک یہی پتا نہیں چل سکا کہ ان اموات کی وجہ کیا ہے ۔ جب حقیقت کا علم نہ ہو تویہ صورتحال افواہوں اور قیاسات کے لیے انتہائی سازگار ہوتی ہے ۔ اصولی طورپر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت فوری طور پر کسی قابل اور اہل شخص کو فوکل پرسن مقرر کرتی جسے اس موضوع پر دسترس بھی ہوتی اور وہ تمام متعلقہ اداروں سے بھی رابطے میں ہوتا اور روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کو اس بارے میںآگاہ کیا جاتا ۔ اب تک ایسا تو نہیں ہوا اور تمام ہی ادارے اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں جن میں کوئی ربط نہیں ہے ۔ جامعہ کراچی کے شعبہ انٹرنیشل سینٹرفار کیمیکل ایندبائیولوجیکل سائسنزنے کہا ہے کہ سویا بین کے اتارنے کے دوران اس کی گرد سے علاقے کی فضا زہریلی ہوگئی جس سے شہری متاثر ہوئے ۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر جہاز سے سویابین اتارنے سے فضا زہریلی ہوئی تو پھر سب سے پہلے متاثربرتھ پر موجود افراد کو ہونا چاہیے تھا مگر اب تک ایسی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ۔ متاثرین کے پی ٹی کی برتھ پر نہیں بلکہ سامنے کی آبادی میں موجود ہیں ۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ صرف رات 8 تا 12 بجے کے دوران ہی فضا کیوں زہریلی ہوتی ہے ۔ پہلے یہ خبر پھیلائی گئی کہ پی ایس او نے کیماڑی سے تیل کی سپلائی معطل کردی ہے پھربدھ کی شام سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ شہر میں پٹرول کی قلت ہوگئی ہے جس کے بعد شہر کے پٹرول پمپوں پر لوگوں کا ہجوم ہوگیا اور کوئی وجہ نہ ہونے کے باوجود پٹرول پمپوں پر پٹرول ختم ہوگیا۔ اس پر بھی وفاقی و صوبائی حکومت کے کسی کارندے نے عوام کو صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔بندرگاہ ایک حساس علاقہ ہے جہاں پر ہرقسم کی ایجنسیوں کے کارندے موجود رہتے ہیں ، اس کے علاوہ جگہ جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں ، اس کے باوجود ابھی تک کسی قسم کا کوئی سراغ نہ ملنا حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومت پر سوالیہ نشان بھی ہے ۔ سندھ حکومت کی نااہلی کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چار روز گزرنے کے بعد اب تک محض دو لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے ۔ اصولی طور پر زہریلی گیس سے ہلاک شدہ افراد کے پوسٹ مارٹم کو معمول کے کیس کے طور پر نہیں لینا چاہیے تھا اور اس کے لیے ماہر ڈاکٹروں کا پینل تشکیل دیا جانا چاہیے تھا مگر سندھ حکومت نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس سے پہلو تہی کی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی و وفاقی حکومتیں یا تو اس کھیل میں حصہ دار ہیں یا پھر ان کے نزدیک لاکھوں افراد پر مشتمل آبادی کے متاثر ہونے اور 14 افراد کے جاں بحق ہونے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔ دونوں ہی صورتیں انتہائی تشویشناک ہیں ۔