ایجنسیوں کا یہ کام نہیں

318

وفاقی حکومت نے اسمگلنگ کے خلاف ایجنسیوں کی خدمات لے لی ہیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ آئی ایس آئی، آئی بی اور ایف آئی اے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کی مانیٹرنگ کریں۔ ذخیرہ اندوزوں کو مال مارکیٹ میں لانے کے لیے دس روز کی مہلت دی گئی ہے جبکہ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا روڈ میپ بنانے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا 20 فیصد تک سستی کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ بجائے خود ایک تضاد ہے کہ جس چیز کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہوتی ہے اس کی قیمت کم کرنے کے لیے تو روڈ میپ بنایا جائے گا اور یہ روڈ میپ کسی معاملے میں آج تک تیار نہیں ہوا۔ جناب عمران خان نیازی پیٹرول اور گیس کی قیمتوں کو خود پہلے کم کریں بقیہ چیزوں کی قیمتیں ازخود کم ہو جائیں گی۔ وفاقی حکومت کھانے پینے کی چیزیں 20 فیصد تک سستی کرنا چاہتی ہے۔ اس کے برسر اقتدار آنے کے وقت پیٹرول کی قیمت 99 روپے اور گیس کی قیمت بھی کم تھی۔ اضافہ خودبتا رہا ہے کہ یہی 20 فیصد کے قریب ہے۔ لہٰذا اگر حکومت پیٹرول و گیس کی قیمتیں 20 فیصد کم کر دے تو کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں ازخود کم ہو جائیں گی۔ جبکہ پی ٹی آئی حکومت آنے کے وقت ڈالر 105 روپے کے لگ بھگ رہتا تھا اچانک اسے پر لگ گئے اور وہ 170 تک پہنچ کر اب 155 پر اٹکا ہوا ہے۔ جناب وزیراعظم تمام ایجنسیوں کو یہ حکم نہ دیں کے کسی چھوٹے بڑے ذخیرہ اندوز کو معاف نہ کیا جائے۔ بلکہ ڈالر کی قیمت بھی نیچے لائیں اگر وہ ڈالر کو 120 کے لگ بھگ بھی لے آئے تو پیٹرول و گیس کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی۔ وزیراعظم صاحب دس دن میں ذخیرہ شدہ مال نکلوانے کا حکم دے رہے ہیں۔ اپنے اردگرد بیٹھے چینی اور گندم مافیا سے ذخائر نکلوائیں۔ اگر وزیراعظم پیٹرول، گیس اور ڈالر کے نرخوں کو کنٹرول کرلیں تو کسی کے خلاف کریک ڈائون کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ حکومت پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اشیائے ضروریہ کی فراہمی، ذخیرہ اندوزی کی روک تھام قیمتوں پر کنٹرول اور ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہر حکومت کا معمول کا کام ہے اس کے لیے خصوصی اجلاس طلب کرنا ضروری نہیں بلکہ ایسے اجلاس طلب کرنے کا مطلب حکومت کی نااہلی ہے۔ جہاں تک آئی ایس آئی، آئی بی اور ایف آئی اے کو کریک ڈائون کی مانیٹرنگ کے حکم کا تعلق ہے تو ان اداروں کو تو سیاسی جماعتوں، مذہبی رہنمائوں، دینی مدارس، سوشل اور مین اسٹریم میڈیا اور حکومت کے مخالفین کی مانیٹرنگ بھی کرنی ہوتی ہے۔ ان اداروں کو حکومت کے خلاف بیان دینے والوں کا تعاقب کرنا اور ان کا دماغ بھی درست کرنا ہوتا ہے۔ انہیں ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کی نگرانی سونپنا مزید بوجھ لادنے کے مترادف ہے۔ قوم کی سیکورٹی، دشمن ممالک کی سازشوں سے نمٹنا اور قوم کی اہم دفاعی تنصیبات کی حفاظت کرنا پتا نہیں کس کی ذمے داری ہوگی۔ حکومت اپنے حصے کا کام کرنے کے بجائے اگر صرف میڈیا پر انحصار کرنے لگے اور میڈیا پروپیگنڈے پر خوش ہو جائے تو ملک کا حال وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت پرنٹ میڈیا کا تیا پانچہ کرنے کے بعد اب سوشل میڈیا کی جانب متوجہ ہوئی ہے اسے ختم کرنے یا اسے قابو میں کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ قومی سلامتی کے پیش نظر اس سلسلے میں قانون لایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی ہو یا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی و غیر سیاسی یا فوجی حکومتیں ان سب نے جتنے قوانین قومی سلامتی کے لیے بنائے ان سب کا مقصد قومی سلامتی نہیں حکومتی سلامتی تھا۔ چنانچہ سوشل میڈیا کے بل پر مقبولیت اور پھر حکومت حاصل کرنے والے عمران خان خوب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا اب ان کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے۔ انہیں ہر طرف سے اس کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ جب حکمرانوں کی کشتی ڈولنے لگتی ہے تو روزانہ اسی قسم کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں جیسے آج کل جاری کیے جا رہے ہیں۔ جو کام سارا سال کرنے کا ہے اسے دس دن میں نہیں کیا جاسکتا۔ مہنگائی میں اضافے پر حکومت کی کوتاہی کا اعتراف کرنے کے بعد بھی وزیراعظم کریک ڈائون کے احکامات کیوں دے رہے ہیں۔