جنوبی ایشیا کی کشیدگی اور اہم دورے

308

جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور ایسے میں کئی اہم اور معنی خیز دورے ہو رہے ہیں۔ ترک صدر طیب اردوان کا دورہ اپنے اندر گہری معنویت کا حامل ہے۔ طیب اردوان وطن واپس روانہ ہو رہے تھے تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوترس پاکستان میں اُتر رہے تھے۔ ترک صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دوروں میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور کشمیر کسی نہ کسی انداز سے زیر بحث آیا۔ خطے کا تیسرا اہم دورہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت آمد ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواںماہ 24,25 کو بھارت کا دورہ کررہے ہیں۔ وہ دہلی کے علاوہ مودی کی آبائی ریاست گجرات کا دورہ کریں گے۔ ٹرمپ اس دوران بہت سے دوطرفہ تجارتی اور دفاعی معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ نئے معاہدے نہ بھی ہوں بھارت اس وقت امریکا کے ساتھ ’’اسٹرٹیجک پارٹنر شپ‘‘ کے قریب ترین حلیف اور دوست کے درجے پر فائز ہے اور یہ درجہ اس سے پہلے صرف اسرائیل کو حاصل تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دورہ جنوبی ایشیا کی سیاست کے حوالے سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ جنوبی ایشیا کے دو اہم ترین ملک بھارت اور پاکستان باقاعدہ جنگ کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ دونوں کے درمیان کشیدگی اور کشمکش تو مدتوں سے چلی آرہی ہے مگر پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کے بعد اس کشیدگی نے نیا اور خوفناک رُخ اختیار کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بچے کھچے سفارتی اور تجارتی روابط مزید سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ کنٹرول لائن پوری طرح گرم ہے اور گرم وخونیں لکیر پر آئے روز فوجی تصادم ہو رہے ہیں۔ کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان جمود جاری ہے۔ بھارت کشمیر میں اپنے غیر مقبول اور غیر قانونی اقدامات کو پوری دنیا سے جواز دلوانا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ امریکا سے یورپ تک ہر منظر کو بدل کر اپنے حق میں کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان نے پانچ اگست کے بعد تحمل اور برداشت سے حالات کا سامنا کیا۔ پانچ اگست کا قدم بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ معاہدوں کی نفی بھی تھا۔ پاکستان عالمی طاقتوں سے یہ امید لگائے ہوئے ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور بھارت کے فیصلوں کو ریورس کرانے میں کوئی بامعنی کردار ادا کریں گے اسی لیے وزیر اعظم عمران خان کئی بار ڈونلڈ ٹرمپ کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں اور ٹرمپ بھی ثالثی کی پیشکش کو قبول کرچکے ہیں مگر دوسرا فریق ثالثی اور سہولت کاری کے نام پر کسی تیسرے فریق کو اس معاملے میں دخیل کرنے کا قطعی مخالف ہے اور بھارت بار بار ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کر چکا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ کی انا زخمی ہوتی ہے اور نہ ان کی زبان پر حرف ِ شکایت آتا ہے۔
ثالثی سے انکار اگرچہ گالی نہیں مگر یہ امریکا کے عالمی کردارکو تسلیم نہ کرنے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ انکار اگر پاکستان کی طرف سے ہو تو امریکا کا غصہ دیکھنے کے قابل ہوتا مگر بھارت کی طرف سے یہ عمل امریکا کے لیے معمول کی کارروائی ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ دورہ ٔ بھارت کے درمیان کیا رویہ اپناتے ہیں؟ جنوبی ایشیا کے مستقبل کا انحصار اس بات پر بھی ہے۔ ٹرمپ نے دو دن نریندر مودی کی خوشامد اور میزبانی کے چٹخارے لینے میں گزار دیا تو سمجھ جانا چاہیے کہ جنوبی ایشیا کا مستقبل بدستور کشیدگی کی صلیب پر لٹکتا رہے گا۔ اس کے برعکس ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی کی بنیاد بننے والے مسئلہ کشمیر پر بات کی اور بھارت پر اس حوالے سے آگے بڑھنے پر دبائو ڈالا تو یہ خطے کے مستقبل کے لیے اچھا شگون ہوگا۔ بین الاقوامی برادری سے کشمیریوں کی مایوسی بڑھ گئی تو مقبوضہ کشمیر، آزادکشمیر اور پاکستان کے عوام حکومتوں کی پروا کیے بغیر نئے راستے کی تلاش شروع کر دیں گے سرگرمیوں کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ کشیدگی کے کسی نئے دور کو روکنے اور نوجوانوں کو مایوسی کی دلدل کی طرف دھکیلنے سے بچانے کے لیے مسئلہ کشمیر کے بامعنی حل کی طرف پیش قدمی ضروری ہے۔ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ بھارت خطے کی سیاست اور مستقبل کا ایک بیرومیٹر ہے۔ ٹرمپ اپنا وزن نریندر مودی کے پلڑے میں ڈال کر امن کے امکانات کو محدود بھی کر سکتے ہیں اور ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ راہ اپنا کر امن کے امکانات کو بڑھانے اور امید دلانے میںبھی ایک اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوترس کا دورہ بھی تین روزہ تھا۔ اپنے دورے کے پہلے روز ہی اسلام آباد میں ماحولیات سے متعلق ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری انتہائی ضروری ہے اور وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے حامی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ طیب اردوان نے بھی اسلام آباد ہی میں مسئلہ کشمیر پر کچھ یہی بات کی تھی ان کا کہنا تھا کہ مسئلے کو طاقت کے بجائے انصاف کے اصول پر حل کرنا چاہیے۔ طیب اردوان کی اس بات پر بھارت نے ناک بھوں چڑھائی تھی اور ترکی کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔ اب دنیا کے سب سے بڑے عالمی ایوان کے سربراہ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کی تو بھارت کا اندرونی معاملات والا موقف قطعی باطل ثابت ہوا۔ بھارت جس مسئلے کو اپنا اندرونی معاملہ کہہ رہا ہے عالمی ادارے کا سربراہ انٹونیو گوترس اسے مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حل کی بات کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت انگلی کے پیچھے سورج کو چھپانے کی کوشش کب تک کرتا رہے گا۔
امریکی سینیٹر لنڈے گراہم کے ایک سوال کے جواب میں بھی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے تیوری چڑھا لی تھی اور دونوں ملک مل جل کر مسئلے کو حل کریں کی بات کے جواب میں پر رعونت انداز میں کہا تھا کہ آپ فکر نہ کریں ایک ہی جمہوریت بھارت اس مسئلے کو حل کر لے گا۔
بھارت بہتر سال سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کر کے دیکھ چکا ہے مگر ناکامی اس کا مقدر ہے۔ آج بھی کشمیر کے گلی کوچوں میں نو لاکھ فوج کا حالت جنگ میں نظر آنا ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت کا یہی تکبر اسے اندر سے کھوکھلا کررہا ہے اور اس کی سخت گیری تباہی پر منتج ہو رہی ہے۔ آج کشمیر میں آزادی کے نعروں کو دباتے دباتے بھارت خود اپنے وجود کے اندر کئی کشمیر پیدا کر چکا ہے اور بھارت کے شہروں میں آزادی کے نعرے بلند ہونے لگے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، طیب اردوان اور امریکی سینیٹر سب کو جھٹلانا بھارت کے تکبر کی علامت اور اظہار ہے۔ بھارت کو اپنے اس رویے کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔ کوئی بھارتیوں سے پوچھے کہ کشمیر ان کا اندرونی مسئلہ کب سے بنا؟۔ اگر یہ اندرونی مسئلہ تھا تو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں منت سماجت کرنے کیوں گئے تھے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ میں ہونے والی تمام کارروائی کا حصہ کیوں بنا رہا؟ دور کیوں جائیں جنرل مشرف کے دور میں بھارت نے کنٹرول لائن پر ویزے پاسپورٹ کے بغیر کشمیری عوام کو سفر کی اجازت کیوں دی اور اس دوران ٹریک ٹو مذاکرات کیوں ہوتے رہے؟ بھارت کے حکمرانوں کے پاس ان سوالوں کا جواب طاقت کے سوا اور کچھ نہیں مگر طاقت ایک بڑی حقیقت تو ہے مگر سب کچھ نہیں۔