بریانی کلچر

288

نئی دہلی سے خبر آئی ہے کہ دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی اور بی جے پی کی عبرتناک شکست کی خوشی میں شہر میں بریانی کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ جیتے ہوئے امیدوار اپنے ووٹروں کی ضیافت کے لیے بریانی کی دیگوں کے آرڈر دے رہے ہیں جب کہ بریانی کی دکانوں پر ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے ہیں لوگ بریانی خرید رہے ہیں خود بھی کھارہے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی کھلارہے ہیں۔ غرض یہ کہ شہر میں ایک جشن کا سماں ہے۔ دہلی کے شاہین باغ میں منحوس شہریت بل کے خلاف دھرنا دینے والی خواتین بھی مودی سرکار کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بریانی کے ساتھ انصاف کررہی ہیں۔
ہمیں یہ خبر پڑھ کر یاد آیا کہ بھارت ہو یا پاکستان دونوں کا سیاسی کلچر ایک ہے اور اس سیاسی کلچر میں بریانی کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ یوں تو چاول سے بہت سی ڈشیں بنتی ہیں نمکین بھی میٹھی بھی لیکن جو قبولِ عام بریانی کو حاصل ہوا ہے وہ کسی اور ڈش کے حصے میں نہیں آیا۔ بریانی دراصل پلائو کی ایک شکل ہے۔ پلائو میں زیادہ مسالے نہیں پڑتے، وہ گوشت کی یخنی میں دم کیا جاتا ہے، جب کہ بریانی میں سرخ مرچ سمیت بارہ مسالے پڑتے ہیں اس جھنجھنٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گھریلو خواتین بازار سے پیکٹوں میں بند بریانی مسالہ منگالیتی ہیں اور مہمانوں کی خاطر داری کے لیے جھٹ پٹ بریانی تیار کرلیتی ہیں۔ بریانی میں کوئی بھی گوشت ڈالا جاسکتا ہے، گائے کا، بکرے کا یا مرغی کا ہمارے ہاں زیادہ رواج چکن بریانی کا ہے لیکن صاحب جو مزا دیگ کی بریانی کا ہے وہ گھر میں پکی بریانی میں نہیں آتا۔ پاکستان میں بھی بھارت کی طرح انتخابات کے موسم میں بریانی کلچر خوب بہار دیتا ہے۔ انتخابی جلسوں میں بھی بریانی بٹتی ہے اور پولنگ کے دن تو ہر امیدوار کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اس کا ووٹر بریانی کھائے بغیر پولنگ اسٹیشن کے اندر نہ جانے پائے۔ پھر جو امیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں وہ بعد میں بھی اپنے ووٹروں کی بریانی سے ضیافت کرتے ہیں۔ غم ہو یا خوشی ہر موقع پر بریانی لوگوں کے کام آتی ہے۔ کسی کے ہاں ماتم ہوجائے تو میت کی تدفین کے بعد پڑوسی ازراہ ہمدردی سوگوار گھر میں بریانی کی دیگ پہنچادیتے ہیں تا کہ مرنے والے کے لواحقین اور قبرستان سے واپس آنے والے افراد بریانی کھا کر اپنا غم غلط کرسکیں۔ رہی خوشی کی تقریبات تو اس میں بے شمار خوشیاں شامل ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریب میں تو بریانی ایک اہم آئٹم کی حیثیت رکھتی ہی ہے۔ بچے کا ختنہ ہو یا عقیقہ اس میں بھی جو لوگ مدعو ہوتے ہیں ان کی تواضع بریانی سے کی جاتی ہے۔ میلادالنبی کی تقریبات میں بھی بریانی خوب چلتی ہے۔
پاکستانی سیاست میں تو خیر دھرنے کی روایت پرانی ہے لیکن اسے نیا رنگ و روپ علامہ طاہر القادری اور عمران خان نے دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد زرداری کی حکومت آئی تو علامہ طاہر القادری جو کینیڈا میں مقیم تھے اچانک پاکستان وارد ہوگئے، ان کا نعرہ تھا ’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ یعنی ریاست پاکستان خطرے میں تھی اور علامہ صاحب اسے بچانے کے لیے خود آئے تھے یا بلائے گئے تھے۔ بہرکیف انہوں نے آتے ہی اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر مرد وزن کے ہمراہ دھرنا دے دیا، اس دھرنے کو طول دینے میں بنیادی کردار بریانی نے ادا کیا۔ ایک ’’صاحب خیر‘‘ جو سرکاری زمینوں پر قبضے کے علاوہ حکومتوں کے پسِ پردہ بنانے اور بگاڑنے میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں، دوپہر کے وقت بریانی کے پیکٹوں سے بھرا ہوا ٹرک دھرنے میں پہنچادیتے اور دھرنے کے شرکا اسے اپنے پیر کی کرامت سمجھ کر نہال ہوجاتے۔ دھرنا چلتا رہا اور بریانی راج کرتی رہی۔ آخر علامہ صاحب کو واپسی کا اشارہ مل گیا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کینیڈا روانہ ہوگئے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خان میدان میں اُترے اور انہوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں طویل دھرنا دیا تو اس میں بھی کمال بریانی کا تھا۔ بریانی نے دمِ آخر تک دھرنے کی رونق برقرار رکھی۔ دوپہر کے وقت بریانی کے پیکٹوں سے بھری گاڑی جلسہ گاہ میں پہنچی تو اس سے پہلے سول سیکرٹریٹ کے ملازمین لنچ بریک کے وقفے میں بھاگم بھاگ دھرنے میں حاضر ہوجاتے اور بریانی کے پیکٹ وصول کرکے یہ جا وہ جا۔ یوں دھرنے کی رونق بھی قائم رہی اور سرکاری ملازمین بھی کئی ماہ تک بریانی کا لطف اُٹھاتے رہے۔
پچھلے دنوں ملک میں آٹے کا کال پڑا تو حیرت ہے کہ کسی وزیر نے عوام کو روٹی کی جگہ بریانی کھانے کا مشورہ نہیں دیا۔ حالاں کہ بریانی ان دنوں روٹی سے زیادہ سستی پڑ رہی تھی۔ بریانی کلچر اگرچہ کراچی میں عام ہے لیکن اس کے اثرات اب پورے ملک میں پھیل گئے ہیں اور تو اور نیم پہاڑی شہر کہوٹا میں بھی بریانی کی بڑی مانگ ہے۔ لوگ اسے کراچی کی سوغات سمجھتے ہیں، یہاں ایک دکان کراچی بریانی کے نام سے مشہور ہے، وہاں خریداروں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ آئیے آپ کو بھی کراچی بریانی کھلائیں۔