عرب حکمرانوں کے صہیونیوں سے مہلک روابط

427

مصر نے محصور غزہ کی سرحد پر ایک نئی فصیل تعمیر کرنی شروع کردی ہے۔ یہ فصیل جس کی تعمیر جنوری کے آخر میں شروع ہوئی ہے کرم ابو سالم سے رفاہ کی تجارتی راہ داری تک چودہ میل لمبی ہوگی۔ فلسطینیوں کے نزدیک اس فصیل کی تعمیر کا وقت بہت تشویش ناک ہے جب کہ صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ فلسطینیوں پر مسلط کیا ہے۔ مصر کا یہ اقدام، مصر کے فوجی حکمران جنرل عبد الفتاح السیسی کے اسرائیل سے قریبی تعلقات کا مظہر ہے اور دراصل اسرائیل کے اصرار پر یہ فصیل تعمیر کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل کی خواہش پر جنرل السیسی نے غزہ اور صحرائے سینا کے درمیان متعد سرنگیں بند کردی ہیں۔ درایں اثنا ٹرمپ کے امن منصوبہ کے اعلان کے بعد سعودی عرب میں آباد فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی خبریں ہیں۔ گو یہ گرفتاریاں فروری 2019 سے جاری ہیں لیکن ان میں تیزی ٹرمپ منصوبے کے اعلان کے بعد آئی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو جنہوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے خطرہ ہے کہ ان کے اس فیصلہ کے خلاف سعودی عرب میں آباد فلسطینی احتجاج کریں گے اور ان کے لیے ناگوار حالات پیدا ہوں گے۔ سعودی عرب نے غزہ کی فلسطینی تنظیم حماس کے خلاف جو کاروائیاں کی ہیں فلسطینی ان پر بھی ناراض ہیں۔
فلسطینیوں کو اس پر بھی سخت تشویش ہے کہ ٹرمپ منصوبے کے اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے خلیج کی ریاستوں، مراکش اور سوڈان سمیت عرب ممالک سے قریبی تعلقات اور تعاون استوار کرنے کی کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے نیتن یاہو ان عرب ممالک کے حکمرانوں پر یہ باور کرانے میں بڑی حد تک
کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں کہ ایران کی بہ نسبت اسرائیل ان کا دوست ہے اور اس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ نیتن یاہو نے یہ مشن پچھلے سال عمان سے شروع کیا تھا جہاں مرحوم سلطان قابوس سے ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوںکے درمیان قریبی تعاون کا معاہدہ طے پایا تھا۔ حال ہی میں نیتن یاہو نے یوگنڈا میں سوڈان کے فوجی سربراہ عبد الفتاح البرہان سے ملاقات کی ہے اور قریبی فوجی تعاون کا سمجھوتا طے پایا ہے۔ ویسے سوڈان اور اسرائیل کے تعلقات درون پردہ 1950سے استوار ہیں۔ 1957 میں اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا مئیر نے سوڈان کی وزیر اعظم عبداللہ خلیل سے پیرس میں خفیہ ملاقات کی تھی۔
گو نیتن یاہو کے عرب ممالک سے روابط نئے نظر آتے ہیں لیکن صہیونی رہنمائوں سے عر ب حکمرانوں کے خفیہ روابط کی داستان بہت پرانی ہے۔ جنوری 1919میں پیرس کی صلح کانفرنس سے دو ہفتے قبل، حجاز کے بادشاہ امیر فیصل ابن الحسین نے عالمی صہیونی تنظیم کے صدر شائم وائزمین سے ملاقات کی تھی جس میں فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کے بارے میں سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس کے عوض فیصل ابن الحسین یہ چاہتے تھے کہ انہیں پورے شام کی ایک آزاد اور وسیع عرب مملکت کا بادشاہ تسلیم کیا جائے لیکن جب پیرس کی صلح کانفرنس کے نتیجے میں شام پر فرانس
نے اپنا نو آبادیاتی تسلط جمایا اور اس کے نتیجے میں فیصل ابن الحسین بادشاہت سے محروم رہے تو صہیونیوں سے ان کا سمجھوتا بھی ٹھپ پڑ گیا۔ لیکن اس کے باوجود فیصل الحسین کے بھائی اور اردن کے امیر عبداللہ نے ہمیشہ صہیونیوں سے قریبی تعلقات برقرار رکھے اس امید میں کہ صہیونی انہیں اردن کے ساتھ فلسطین کا بھی بادشاہ بننے میں مدد دیں گے۔ اور دراصل صہیونیوں سے اسی تعاون کے نتیجے میں امیر عبداللہ قتل کر دیے گئے۔ ان کے پوتے اردن کے شاہ حسین نے 1960میں یروشلم میں اپنی فوج کے جرنیل کی اسرائیلی جرنیل سے پہلی خفیہ ملاقات کی منظوری دی تھی اور 1963میں شاہ حسین نے لندن میں اپنے ڈاکٹروں کے دفتر میں اسرائیلوں سے خفیہ ملاقات کی تھی جس کے بعد 1970 کے وسط تک اسرائیل میں شاہ حسین کی اسرائیلی رہنمائوں سے کھلم کھلا ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ شاہ حسین کی اسرائیلی وزیر اعظم رابین کے ساتھ دوستی کسی سے چھپی نہیں تھی۔ یہ رابین ہی تھے جنہوں 1948 میں Lydda کے شہر سے تمام فلسطینیوں کو نہایت بے دردی سے نکال دیا تھا اور 1987 میں غزہ اور غرب اردن میں فلسطینیوں کے خلاف ان کی ہڈیوں کو توڑنے کی ہولناک پالیسی اختیار کی تھی۔ کہا جاتا ہیکہ بنیادی مقصد شاہ حسین کا صہیونی رہنمائوں کے ساتھ روابط کا اپنی بادشاھت کا تحفظ تھا۔
شاہ حسین کے علاوہ تونس کی حکمران نیو دستور پارٹی کے رہنمائوں نے 1950 میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندوں سے خفیہ ملاقات کی تھی، مقصد، فرانس سے آزادی کے حصول میں اسرائیل کی مدد حاصل کرنا تھا۔ اسرائیل سے یہ روابط تونس کے قائد حبیب بورقیبہ کے دور اقتدار کے آخر تک بر قرار رہے۔ ادھر شمالی افریقا میں اسرائیل کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی تعلقات مراکش کے ساتھ رہے۔ 1963 میں مراکش کے وزیر محمد اوکفیر نے مراکش کے انٹیلی جنس ایجنٹوں کی تربیت کے لیے اسرائیل سے سمجھوتا کیا تھا۔ اسرائیل کی تربیت اور مدد کی بنیاد پر مراکش کے ان ایجنٹوں نے مراکش کے بادشاہ کے مخالف رہنما مہدی بن برکہ کو 1965 میں تلاش کر کے انہین قتل کردیا تھا، 1976 میں مراکش کے شاہ حسن نے اسرائیل کے وزیر اعظم رابین کو خفیہ طور پر مراکش آنے کی دعوت دی تھی، 1986 میں شاہ حسن نے کھلم کھلا شمعون پریز کو مراکش کے دورہ کی دعوت دی تھی اور 1994 میں مراکش اور اسرائیل کے درمیان رابطے کے دفاتر کا تبادلہ ہوا۔ 2018 میں نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں خفیہ طور پر مراکش کے وزیر خارجہ سے مذاکرات کیے تھے۔
فلسطینیوں کو احساس ہے کہ عرب حکمرانوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات خفیہ ہوں یا کھلم کھلا، ان کا مقصد کبھی فلسطینیوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے نہیں رہا بلکہ ان روابط کے پس پشت خود عرب حکمرانوں کا اپنا مفاد وابستہ رہا ہے اور اب بھی جب عرب حکمران فلسطین کی مملکت کے خاتمہ کے لیے ٹرمپ منصوبہ کی حمایت میں پیش پیش ہیں، ان کے سامنے مقدم اپنی حکمرانی کا تحفظ ہے اسی بنا پر فلسطینیوں نے ٹرمپ منصوبہ یکسر مسترد کردیا ہے۔ فلسطینی اس وقت یک و تنہا کھڑے ہیں۔ عرب حکمران تو ایک طرف رہے پوری مسلم امہ اس وقت جب کہ فلسطینی اپنی زندگی اور موت اور آزادی اور بقا کے مسئلہ سے دوچار ہیں ایسی بے اعتنائی برت رہی ہے جسے مجرمانہ کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔