منزہ گل
آدمؑ کے دنیا میں قدم رکھنے کے بعد سے آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ قبائل اور قومیں بنتی گئیں۔ مختلف تہذیبیں سامنے آئیں مثلاً یونانی (سکندر اعظم کا زمانہ) سمیری (فرعون کا زمانہ) ایرانی، عربی، وادی سندھ کی تہذیب، اور مغربی تہذیب وغیرہ۔ یوں پھر ہرعلاقے میں الگ تہذیب اور ایک الگ کلچر جنم دیا تہذیبوں کے زیر اثر نظام سامنے آئے جن میں سوشلزم، کمیونزم، سیکولرزم سب سے نمایاں ہے اس کے علاوہ اور بھی کافی سارے نظام ہیں جو ہر علاقے اور خطے کے حساب سے مختلف ہیں۔ یہ نظام ایک دوسرے سے کہیں ٹکراتے ہیں تو کہیں متفق ہوتے ہیں۔ اگر ہم اسلام کے اوپر ذرا غور کریں تو ایک ادنیٰ غلام سے لے کر ایک آقا تک مسائل اور معاملات اس میں شامل ہیں۔ چاہیے وہ ایک کسان ہو یا تاجر، جنگجو ہو یا ایک عام شہری، باپ کی صورت میں ہو یا بیٹے کی، وہ ماں کی صورت میں ہو یا بیٹی کی یا وہ بیوی کی صورت یا عام خاتون ہی کیوں نہ ہو اسلام نے سارے آداب اخلاقیات معاملات ساری چیزیں واضح کردیں۔
آج کل لبرل ازم اور فیمنزم کا دور دورہ ہے بلکہ یوں کہیے کہ فمینزم کا بھوت لبرل طبقے پر سوار ہے۔ فیمنزم اسلام کے قاعدے قوانین اور تعلیمات کے برعکس ہے اس میں جو حقوق مرد کے ہیں وہ عورتوں کو دیے جاتے ہیں اور جو عورتوں کے ہیں انہیں مردوں کے کھاتے ڈالا جاتا ہے۔ فیمنزم کی بنیاد رکھنے کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ جب تک عورت، مرد کے خوف یا شرم میں رہے گی تب تک اسے زبردستی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں خودمختار اور مردوں کے برابر حقوق اور مردوں کے سامنے لاکھڑا کرنے، مردوں کی پابندیوں سے آزاد کرنے اور وقتی طور پر مردوں کو ان کے قدموں پر جھکا کر انہیں حاکمیت کا لالچ دیکر استعمال کیا جاسکتا ہے اور یہ واقعی میں ایسا ہوا۔اگر یہ لڑکی کو اس بنیاد پر ساتھ لاتے کہ ایک مرد ان پر حکومت کرے گا تو یہ کبھی ان کے ساتھ ایسے کھڑی نہیں ہوتی لیکن انہیں اس کے برعکس کرکے دکھایا جارہا ہے تو وہ خود کو بڑی توپ سمجھ کر استعمال ہونے آگئی۔
پی ٹی ایم میں گلالئی اسماعیل کے آنے کے بعد سے پی ٹی ایم کا منشور مطالبات سے ہٹ کر جنسیات اور فحاشیات پر آگیا اسی گلالئی نے پختون خواتین کو چادر و چاردیواری کی حدوں سے نکل کر آگے آنے کا مشورہ دیا، اسی گلالئی نے برقعے کا مذاق اڑایا، اسی نے چادر کی توہین کی۔ اسی گلالئی نے کہا تھا کہ اسلام اور پختون کلچر عورت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اس لیے میں مذہب اور کلچر کی ایسی باتوں کو نہیں مانتی۔ یہی گلالئی لڑکیوں کو اسقاطِ حمل و مانعِ حمل اقدام کا بھی درس دیتی رہی ہیں۔ قطعاً ایسا نہیں کہ پختون غلط ہیں، غلط پختون نہیں بلکہ نشانہ پختون ہیں۔
چند دن بعد ’’عورت مارچ‘‘ کے نام سے جلوس نکالے جائیں گے یوں کہیں کہ عورت کی عزت و ناموس کا جنازہ نکالا جائے گا، جس میں میرا جسم میری مرضی، کھانا گرم نہیں کرتی، میں کھانا گرم کرلوں کتے بن جاؤ، طلاق دو، نکاح جیسے مقدس فریضے کا مذاق اڑایا جائے گا۔ بہت سی آزاد خیال بلکہ فحش خیال خواتین بھی اسے بھرپور سپورٹ و کوریج دیں گی۔ پی ٹی ایم پختونوں کے نام پر کیا کررہی ہے پختونوں کو کہاں لے جانا چاہ رہی ہے۔ پختون کلچر اگر ایک فقرے میں بیان کیا جائے تو پختون کلچر میں شرم و حیاء اور مردوں کی عزت کا پہلو سب سے نمایاں ہے۔ پختون خواتین جتنی بھی ماڈرن ہو جائیں جتنی بھی پڑھ لکھ جائیں اپنی حد حدود نہیں بھولتیں اور خاص کر جو فیمنزم کا جراثیم ان میں گھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ پختون کلچر میں قابلِ تصور ہی نہیں۔
پی ٹی ایم خوب ذلیل و رسوا ہونے کے بعد اب ایک نئے پینترے کے ساتھ میدان میں آئی ہے اس بار پینترا نیا ہے اور اس کو چلانے والے پشت پناہ لوگ وہی پرانے ہیں۔ یہاں دو اہم ترین باتوں پر غور کریں۔ گلالئی اسماعیل پختون خواتین کو کہتی رہی ہیں کہ چادر وچاردیواری سے باہر نکلو اور دوسری جانب انہیں فیمنزم کا درس بھی دے رہی ہیں۔ یعنی انہیں کہا جارہا ہے چادر چار دیواری پھلانگو اور مردوں پہ قابو پاؤ یعنی مردوں کو اپنا پابند بناؤ چند ایک احباب ابھی بھی اس سوچ میں ہوں گے کہ آخر یہ فیمنزم ہے کیا بلا۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب ہے کہ عورت اگر زور زبردستی سے تمہاری خواہش پوری نہیں کررہی ہے تو اسے میٹھی گولی دے کر خود پر حکمران مسلط کر کے اپنی خواہش پوری کرلو۔ عورت کے سامنے غیرت مند بن کر اگر خواہش پوری نہیں ہورہی تو بے غیرت بن جائیں اور عورت کو آزادی کا نام دے کر اپنی خواہش پوری کروالیں۔
اس مرتبہ عورت مارچ کے نام پر طوفان بدتمیزی کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں باقاعدہ ٹریننگ سینٹر قائم کردیے گئے جہاں خواتین کی مادر پدر آزادی کے نعرے لگانے کے لیے انتہائی بے ہودہ ’’تہذیب و اخلاق سے عاری شتر بے مہار‘‘ بازار کی زینت خواتین کو تربیت دی جارہی ہے جس کا ایک اسلامی ریاست تو چھوڑیں کسی سیکولر ریاست میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی تو پچھلے سال کا عورت مارچ میلے کی بے ہودگیاں اور بدتمیزیاں نہیں بھولے تھے کہ ایک اور بکاؤ عورتوں کا میلہ 8 مارچ کو یوم خواتین پر تیار کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے لبرل پاکستان میں مادر پدر آزادی کی کیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے خاندانی نظام پر حملہ کرنا اور خاندان اور عائلی زندگی کو ختم کرنا ہے۔
عورت مارچ میں اس بار تو شاید بہت کچھ نیا اور جارحانہ ہو گا۔ لال لال کے بعد اب کمانڈوز تیار ہیں۔ ترانہ بھی اپنا۔ نعرے بھی نئے۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والا سلوگن ہوا پرانا۔ اس بار کچھ نئے کی امید رکھیں۔ 8 مارچ کو عورت مارچ منعقد کیا جا رہا ہے جس کے لیے لاہور کراچی اور اسلام آباد میں مخصوص گروہ تیاریوں میں مصروف ہیں۔ باقاعدہ ٹریننگ سیشن منعقد کیے جا رہے ہیں اور پوسٹر ڈیزائنگ کے مقابلے منعقد ہو رہے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ یہ عورت مارچ اور لال لال لہرانے والیاں چند ہی ہوتی ہیں جو کہیں بائی چانس اکھٹی ہو جاتی ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ سب باقاعدہ پلاننگ سے ہوتا ہے اور مہینوں کی اس پلاننگ کے لیے بڑے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ جب مارچ ہوجائے گا پھر سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ چرچا ہو گا، دینی جذبات رکھنے والے بہت سے احباب بیدار ہوں گے۔ اس پر لمبے لمبے ناصحانہ مضامین لکھے جائیں گے۔ اگلے دن ویڈیو کلپس ریکارڈ ہوں گے۔ پوری کارروائی کے بعد ’’اسلام میں عورت کے حقوق‘‘ کی بحث چھیڑی جائے گی جسے یہ سب آنٹیاں گھر بیٹھ کر تھکن اتارتے ہوئے انجوائے کریں گی۔ کیونکہ وہ اپنا کام کر چکی ہوں گی اور بعد ازاں لیکچر پٹتے بھی دیکھیں گی۔ کیونکہ ردعمل میں ہونے والی بحث میں صرف دفاعی انداز ہی اپنایا جا سکتا ہے۔ جس کا باقاعدہ فائدہ اسی این جی اوز زدہ ایجنڈے کو ہی ہوتا ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ بعض حلقوں کے ایما پر یہاں اسلام مخالف اور دینی و معاشرتی روایات کے خلاف سب کچھ کرنے کی کھلی اجازت دی جاتی ہے۔ جب پوری کارروائی ہو جاتی ہے تو پھر ہمدردانہ اور طفل تسلی کے لیے ردعمل کی بھی تھوڑی سی اجازت مل ہی جاتی ہے۔گویا انہیں نعروں میں اشتعال انگیزی، قانون حکومت مذہب سمیت ہر طبقے و ضابطے کی دھجیاں اڑانے کی مکمل آزادی ہے۔ کیوں کہ یہ معاشرے کی لاڈلی ہیں، صرف انہی کے تو حقوق ہیں۔ یہ جو چاہیں کہیں جسے چاہیں لتاڑیں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔ اگر تنظیم اسلامی کوئی عام سے پیغام والے بورڈ بڑے شہروں کے چوک میں لگائے تو اسے فوری ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ پیسے لیکر بھی اشتہار چھاپنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ اشتہار میں قرآن پاک کی ایک آیت مع ترجمہ اور ساتھ یہ تحریر درج ہو کہ ہمیں اشتہارات میں خواتین کی تصاویر شائع نہیں کرنی چاہئیں۔ جی ہاں ارض پاک میں قرآنی آیت والا اشتہار پیسے دیکر اپنے خرچ پر بھی شائع نہیں کرایا جا سکتا جبکہ دینی معاشرتی روایات کی دھجیاں اڑانے کے لیے عورت مارچ کی تشہیر مفت میں ہو گی اور تیاریاں سڑکوں پر سرعام جاری ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا سوشل میڈیا سب پر بھرپور کوریج ہو گی۔ یہ مارچ نہ صرف اسلام کے اقدار کا کھلم کھلا مذاق ہے بلکہ فحاشی اور بے حیائی کا فروغ ہے اور پاکستان کو اسلامی مملکت کے بجائے ایک سیکولر اور مکمل طور پر آزاد خیال بنانے کا ایجنڈا ہے۔ دشمنان مملکت کو مسئلہ صرف اسلام اور نظریہِ پاکستان سے ہے جو ہماری بنیاد ہیں۔ تو آئیں مل کر اپنے ملک کو ان غلط نظریوں سے بچانے کے لیے ایک ہوں اور آواز اٹھائیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں کی خواتین اپنی حدود بہتر طریقے سے جانتی ہیں۔ کسی اور کو ان کے حقوق یاد دلانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔