صاحبو! کوئی کچھ بھی کہے۔ جب سے وزیر خزانہ کی تقریر سنی ہے ہم نے رجوع کرلیا ہے۔ اگر حفیظ شیخ کو نہ سنتے ہمیں تو پتا ہی نہ چلتا کہ خان صاحب کی حکومت کار کردگی کا اتنا شاندار مظاہرہ کررہی ہے۔ حفیظ شیخ کے مطابق ٹھوس اقدامات کے نتیجے میں معیشت آہستہ آہستہ سنبھل رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے بورڈ کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے ہیں۔ بلوم برگ جیسے مایہ ناز ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ پر فارمنس کے اعتبار سے دنیا کی بہترین مارکیٹ ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ جو ممالک اپنی بزنس کمیونٹی کے لیے سہولتیں مہیا کررہے ہیں پاکستان ان میں دنیا کے ٹاپ دس ممالک میں شامل ہے۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کا کہنا ہے کہ پا کستان کی معیشت درست سمت میں جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ملک میں ہا ہا کار کیوں مچی ہوئی ہے۔ غربت، افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث عوام کی چیخیں کیوں نکل رہی ہیں۔ وہ کیوں جھو لیا ں پھیلا پھیلا کر حکومت کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ لوگوں کی برداشت کیوں جواب دیتی جارہی ہے۔ معیشت کی جو سنہری تصویر عالمی اداروں کو نظر آرہی ہے وہ پاکستان میں کسی اور طبقہ کو کیوں نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت عوام کا استیصال کرکے، ان کا پیٹ کاٹ کر عالمی اداروں کا پیٹ بھررہی ہے۔ اس لیے ان اداروں کو پاکستان میں سب ہراہرا دکھ رہا ہے اور جن کے پیٹ کاٹے جارہے ہیں وہ چیخ چلارہے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمارکچھ بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پیداواری شعبے کی ترقی کی شرح منفی ہے۔ ہنڈا، سوزوکی اور انڈس موٹرز جیسے بڑے گروپ اپنی پیداوار مسلسل کم کررہے ہیں جس کی وجہ سے آٹو انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں افراد ملازمت سے فارغ ہوچکے ہیں۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ تاریخ کے بدترین خسارے کا شکار ہے۔ فیصل آباد اور کراچی میں اس شعبے سے منسلک لا کھوں محنت کش بے دخل کیے جاچکے ہیں۔ بینکنگ کے شعبے میں بھی بیرونی سرمایہ کاری آنے کے بجائے سرمایہ کاری کا انخلا نظر آرہا ہے۔
آئی ایم ایف سے محض دوارب سالانہ قسط کی وصولی کے لیے حکومت نے ملک آئی ایم ایف کے کارندوں کے حوالے کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے تازہ شرط یہ سامنے آئی ہے کہ 400ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے جائیں۔آئی ایم ایف سے طے کردہ شرائط کی تکمیل کے لیے عائد کردہ مختلف ٹیکسوں سے تاجر طبقہ نالاں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے عائد کردہ ٹیکسوں کا بوجھ بھی بالآخر عوام کی طرف ہی منتقل کردیا جاتا ہے جو پہلے ہی بے پناہ ٹیکسوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں۔ اتنے بھاری ٹیکس عائد کرنے کے باوجود حکومت ریونیو کلیکشن کے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ رہے روزگار کے مواقع توکئی ماہ پہلے فواد چودھری نے کہا تھا کہ روزگار کے حصول کے لیے حکومت کی طرف دیکھنا بہت بڑی حماقت ہے۔ اب وزیراعظم نے بھی سرکاری نوکری کے حوالے سے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس حکومت کا حال ہے جو لاکھوں نوکریوں کے وعدوں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔
اس دگرگوں صورت حال میں بجائے اس کے کہ حکومت عوام کو کوئی ٹھوس سہولت دیتی وہ ڈرامے بازیوں میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت نے اگلے پانچ ماہ کے لیے دس ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ دو ارب ماہانہ کے اس ریلیف کو عوام پر تقسیم کریں تو دس روپے ماہانہ بنتا ہے۔ پانچ مہینے میں پچاس روپے کی سہولت۔
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
یہ سہولت ہر خاص وعام کے لیے نہیں ہے۔ یہ سہولت صرف ان کے لیے ہے جو یوٹیلٹی اسٹورز کی لمبی لمبی قطاروں میں دھکے کھائیں گے۔ پھر یوٹیلٹی اسٹورز کا نیٹ ورک بھی اتنا وسیع نہیں کہ ملک کے تمام عوام کو دستیاب ہو۔ حکومت کی طرف سے پہلے عندیہ دیا گیا تھا کہ عوام کے لیے 25ارب کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جارہا ہے۔ پھر حکومت کو اندازہ ہوا کہ یہ پیکیج عوام کی اوقات سے زیادہ ہے تو اسے کم کرکے 15ارب روپے کردیا گیا۔ یہ بھی زیادہ محسوس ہوا تو بالآخر دس ارب روپے کے ریلیف پر فائنل ہوا۔۔ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم۔۔ بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے۔
یہ ریلیف نہیں فراڈ ہے۔ اس سے کہیں زیادہ رقم تو حکومت آٹا اور چینی مہنگی کرکے عوام کی جیب پر ڈاکے ڈال کر نکال چکی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے راہزن پورا بٹوہ چھین کر کرائے کے پیسے دے دیتے ہیں۔ حکومت نے پہلے یہ تاثر دیا تھا کہ غریبوں کی معاونت اور ہمدردی کے لیے یہ کوئی خصوصی اور ہنگا می پروگرام ہے۔ جو نہ جانے کہاں کہاں سے کٹوتی کرکے غریبوں کے لیے جمع کیا جارہا ہے لیکن بعد میں عقدہ کھلا کہ غریبوں کی محرومیوں کے ازالے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے جس احساس پروگرام کا بڑی شدت سے ڈھنڈورہ پیٹا تھا یہ اسی کا حصہ ہے۔ احساس 200ارب روپے کا پروگرام ہے جس میں سے چالیس ارب روپے اب تک خرچ کیے گئے ہیں۔ اس ریلیف پیکیج کو بھی شامل کرلیا جائے تو کل رقم پچاس ارب روپے بنتی ہے۔ باقی ڈیڑھ سو ارب روپے کہاں جائیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں ممکن ہے پچاس ارب روپے مزید خرچ کردیے جائیں۔ باقی سو ارب روپے کہاں جائے گا۔ یقینا عالمی سود خور اداروں کے قرضوں کی قسط کی ادائیگی میں۔ کالم بہت خشک ہوگیا ہے۔ آخر میں ایک قصہ سن لیجیے۔
ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا (یہ ان دنوں کی بات ہے جب گوگل نہیں تھا ہر بات وزیر سے پوچھنا پڑتی تھی) کہ میرے نوکر مجھ سے زیادہ خوش رہتے ہیں جب کہ ان کے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس بہت کچھ ہے۔
وزیر نے کہا ’’بادشاہ سلامت اپنے کسی خادم پر ننانوے کا قانون استعمال کرکے دیکھیں خوشی کا فور ہو جائے گی‘‘۔
بادشاہ نے پوچھا ’’یہ ننانوے کا قانون کیا ہوتا ہے؟‘‘۔
وزیر نے کہا ’’بادشاہ سلامت ایک صراحی میں ننانوے درہم ڈال کر اس پر لکھ دیجیے۔ اس میں آپ کے لیے سو درہم ہدیہ ہے۔۔ رات کو کسی خادم کے دروازے پر رکھ کر دروازہ کھٹکھٹائیں اور ادھر ادھر چھپ جائیں‘‘۔
بادشاہ نے ایسا ہی کیا جس رات ملکہ میکے گئی ہوئی تھی ایک خادم کے دروازے پر صراحی رکھی، دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک کونے میں چھپ گیا۔ دستک سن کر خادم باہر نکلا۔ صراحی اٹھائی اور اندر چلاگیا۔ درہم گنے تو ننانوے تھے۔ خادم نے سوچا یقینا ایک درہم باہر گر گیا ہوگا۔ خادم اور اس کے گھر والے باہر نکلے اور درہم کی تلاش شروع کردی۔ ساری رات گزرگئی لیکن درہم نہیں ملا۔ درہم ہوتا تو ملتا۔ اسی طرح جو لوگ اس ریلیف پیکیج سے کچھ ملنے کی توقع رکھتے ہیں شانتی رکھیں کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ یوٹیلٹی اسٹورز کی قطاروں میں دھکے کھانے کے بعد ان کا حال اس خادم اور اس کے گھر والوں جیسا ہوگا۔ ساری رات کی خجل خواری کے بعد جب خادم اگلے دن دربار میں پہنچا تو اس کا مزج مکدر اور رت جگے سے بدن ٹوٹ رہا تھا۔ یہ ریلیف پروگرام بھی جمہوری حکمرانوں کے ایسے ہی ننانوے کے قانون ہیں۔ مزید تماشا یہ کہ بادشاہ کی صراحی میں ننانوے درہم تو تھے ان کی ریلیف کی صراحی میں ایک رو پیہ بھی نہیں ہوتا جب کہ آٹا اور چینی کی قیمت بڑھا کر صراحی کی قیمت پہلے ہی وصول کرلی جاتی ہے۔