بلوچستان پھر دہشت گردی کی زد میں

176

بلوچستان پھر سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔ بدھ کو تربت میں جس طرح سے گھات لگا کر سیکوریٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیا اور کئی گھنٹے تک باقاعدہ مقابلہ کیا گیا،انتہائی تشویشناک بات ہے ۔ چندروز قبل کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر مظاہرے میں بم دھماکا ہوا تھا جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ جس طرح سے دوبارہ بلوچستان میںدہشت گردی کی جارہی ہے ، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کو دشمنوں نے ایک مرتبہ پھر سے اپنے نشانے پر لے لیا ہے ۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف چومکھی جنگ لڑ رہا ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی مدد کرنے میں بھارت جیسے اعلانیہ دشمن ہی پیش پیش نہیں ہیں بلکہ اس میں دشمنوں سے زیادہ اتحادیوں کا ہاتھ ہے ۔ پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ایک طویل جنگ لڑی ہے جس میں پاکستان کا اپنابہت نقصان ہوا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کی ان قربانیوں کو ہر سطح پر سراہا جاتا اور پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے مدد فراہم کی جاتی ، پاکستان کے ساتھ اس کے بالکل الٹ سلوک کیا گیا ۔ افغانستان میں پاکستان کے کردار کا امریکا کو واضح طور پر احساس ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان کی مدد کا طالب رہتا ہے ۔ اس سب کے باوجود امریکا کا رویہ کبھی بھی پاکستان کے ساتھ دوستانہ نہیں رہا بلکہ اس کے برعکس وہ پاکستان پر ہر طرح کا دباؤ ڈالتا رہتا ہے ۔ امریکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز پاکستان میں حالات خراب کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں ۔ متعدد مرتبہ اس بات کے ثبوت مل چکے ہیں کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئی ہیں جن میں امریکیوں کی مدد شامل تھی ۔ حال ہی میں پشتون تحفظ موومنٹ کی مشکوک اور ملک دشمن سرگرمیاں سامنے آئی ہیں ۔ پشتون تحفظ موومنٹ کو بنانے میں امریکی این جی اوز کا ہاتھ ہے ۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے سوشل میڈیا پرکئی متحرک کارکنان کو مغربی ممالک نے اپنے ممالک میں پناہ دی ہوئی ہے ۔ اسی طرح بلوچستان لبریشن آرمی کے ملک دشمن رہنمابھی مغربی ممالک ہی کی گود میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہیں سے اپنی مذموم سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمہ وقت چوکس ہیں جس سے نقصان کی شدت کم ہے تاہم حالیہ واقعات کی روشنی میں ان اداروں کو مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت حکومت کو بھی سیاسی محاذ پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے اور دوستوںکے لبادے میں چھپے دشمنوں کو بھی پہچاننے اور انہیں مسکت جواب دینے کی ضرورت ہے ۔