جاوید الرحمن ترابی
کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جو ہمیں رلاتا نہ ہو‘ سری نگر کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور کرفیو زدہ علاقوں کے شیر خوار بچے امن اور دودھ مانگ رہے ہیں‘ اور ہم ہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے‘ معجزے کے انتظار میں ہیں‘ معجزے ایسے نہیں ہوتے‘ اس کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے‘ کشمیر سے اہلِ پاکستان کی محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں یہ تعلقات صرف سرکاری سطح پر بار بار دہرائی جانے والی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد کی یقین دہانیوں تک ہی محدود رہنے سے معجزے نہیں ہوتے‘ اس کے لیے گردنیں کٹوانا پڑتی ہیں‘ حکومت کی خاموشی بتا رہی ہے کہ شاید وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ کشمیری پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ کیا یہ سچ ہے کہ ہم اسے سمجھ نہیں سکے۔
سلیم احمد مرحوم کا ایک شعر ہے ؎
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پھر اس کے بعد جھوٹی فتح کے منظر بناتا ہوں
مقبوضہ کشمیر میں حالات بدل رہے ہیں اور ہم سو رہے ہیں بھارت عالمی اصول فراموش کرکے‘ سلامتی کونسل میں کیے جانے والے وعدے ایفا کرنے کے بجائے انہیں توڑ چکا ہے لیکن ہم اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم کشمیری عوام کے ساتھ ہیں‘‘ وہاں جدوجہد نیا رخ لے چکی ہے اور ہم خود کو مشکل میں سمجھ رہے ہیں پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتیں یکسو ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا لیکن پھر خاموش کیوں ہیں؟ بھارت دو نئے علاقوں مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کے لیے بجٹ بنا رہا ہے اور ہم ابھی تک صورت حال کا جائزہ ہی لے رہے ہیں۔
5اگست کو کشمیر میں قیامت گزر گئی ہے مودی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ 412افراد پر ’’بدنام زمانہ‘‘ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا ہے یہ گرفتاریاں مختلف علاقوں میں جاری کم و بیش 106سرچ آپریشن کے دوران کی گئیں۔ جگہ جگہ سرچ آپریشن کیے جارہے ہیں اور مودی حکومت سخت سے سخت اقدامات اٹھا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں برسوں سے انسانیت اور امن کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، جنوبی ایشیاء کا امن بھی داؤ پر لگا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا 198 واں روز ہے، وادی میں اسکول، کالجز اور تجارتی مراکز بند ہیں، مقبوضہ وادی میں نظام زندگی پوری طرح مفلوج ہوچکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی جارحیت بدستور جاری ہے، کشمیری روز مرہ کی ضروری اشیاء خریدنے سے بھی قاصر ہیں، دودھ بچوں کی خوراک، ادویات سب ختم ہو چکا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ، موبائل سروس بدستور معطل ہے، کرناٹک میں زیر تعلیم3کشمیری طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا، طلبہ کو پاکستان کے حق میں نعرے لگانے پر گرفتارکیا گیا۔ بھارتی فورسز نے سری نگر، بڈگام اور دیگر علاقوں کی ناکہ بندی کی، بھارتی فورسز نے گھر گھر تلاشی کے دوران خواتین سے بدتمیزی کی اور بچوں کو ہراساں کیا، بھارتی فورسز نے متعدد کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، کرفیو اور پابندیوں کے باعث اب تک مقامی معیشت کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کشمیری رہنماؤں، نوجوانوں سمیت بچے بھی جیلوں میں قید ہیں، 4 ماہ سے کشمیریوں کو نماز جمعہ مساجد میں ادا کرنے نہیں دی جا رہی۔ یاد رہے کہ کچھ روز قبل بھارتی ائر فورس کے سابق ائر مارشل کپل کاک کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر یخ بستہ جیل ہے، 80 لاکھ کشمیری یخ بستہ قید میں ہیں، صورت حال کو نارمل کیسے کہہ سکتے ہیں۔ سابق بھارتی وائس ائر مارشل کپل کاک نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اعلانات کے بجائے کشمیریوں کا درد سمجھنے کی ضرورت ہے۔