آگاہی کا دُکھ!

162

آگاہی ایسا دکھ ہے جو انسان کو ریزہ ریزہ مارتا ہے، باخبر ہونا اچھی بات ہے مگر بے خبر ہونا اس سے بھی اچھا ہے۔ عدلیہ شہریوں کو سہولت اور تحفظ دینے کے لیے قائم کی جاتی ہے مگر جب عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہوتا کہ عدالتیں ایسی منڈی ہیں جہاں قلم کی بولی لگتی ہے اور دماغ خریدے جاتے ہیں تو وہ قطرہ قطرہ مرنے لگتے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی ہے تو عام آدمی اپنے کانپتے اور لڑکھڑاتے قدموں کو دیکھنے لگتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ملکی معیشت عوام کی معاشی حالت سے مشروط ہوتی ہے۔ عوام ننگے بھوکے ہوں تو ملکی معیشت کشکول کے سہارے کھڑی ہوتی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں غیر قانونی عمارات کو گرانے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ غیر قانونی عمارات کیسے تعمیر ہوئیں؟ راتوں رات تو تعمیر نہیں ہوسکتیں۔ عزت مآب چیف جسٹس کا فرمان ہے کہ تمام غیر قانونی عمارات منہدم کردی جائیں، ان عمارات میں آسمان سے باتیں کرتی 9,9 منزلہ عمارات بھی ہیں جو بہت دور سے نظر آجاتی ہیں مگر ان پر کسی ادارے، کسی آفیسر کی نظر نہیں گئی مگر چیف جسٹس کی نظر پڑتے ہی غیر قانونی ہوگئیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنہوں نے کروڑوں روپے لیے اور دولت کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر ان کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔ ہماری عدلیہ نے ازخود نوٹس لینے میں بہت نام کمایا ہے مگر آباد بستیوں اور بلند و بالا عمارات کو مسمار کرنے کے
معاملے میں مکینوں کو ریلیف دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ بھارت میں بھی غیر آباد زمینوں پر بستیاں آباد کرلی جاتی ہیں مگر حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ان بستیوں اور فلک بوس عمارات پر بلڈوزر پھیر دے کیوں کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ایک حکم کے ذریعے حکمرانوں اور صاحب اختیار افراد پر یہ پابندی عائد کردی ہے کہ جب تک متبادل جگہ نہ دی جائے کسی بھی عمارت کو مسمار نہ کیا جائے۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ہماری عدالت عالیہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان کو انہی کی عمارت کے ملبے تلے کیوں مارنا چاہتی ہے۔ عدلیہ کی اولین ذمے داری شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کے بنیادی حقوق دلانا ہے، مگر ہماری عدالت عظمیٰ تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان کو بے یارومددگار کرنے پر کمربستہ ہے۔ یہ کسی بدنصیبی ہے کہ ہماری عدلیہ کے میزان کا پلڑا شہریوں کے بجائے حکمرانوں کی جانب جھکتا ہے۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اس نے ایک ازخود نوٹس کے ذریعے یہ حکم صادر کیا ہے کہ کسی حادثے یا جھگڑے میں کوئی زخمی ہوجائے تو اسے علاج کی سہولت فراہم کی جائے پھر پولیس کارروائی کی جائے۔ ہمارے ہاں پہلے پولیس کارروائی کرتی ہے پھر زخمی کا علاج کیا جاتا ہے، اس کارروائی کے دوران اکثر زخمی خون بہنے کے باعث مر جاتے ہیں۔ بھارتی عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق اگر کوئی زخمی علاج نہ ملنے کی وجہ سے مرجائے تو علاج سے انکار کرنے والے پر قتل کا مقدہ درج کیا جائے گا۔ ہمارے ہاں قانون کو مکڑی کا جالا بنادیا گیا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا ہے اور طاقت ور جالے کو توڑ دیتا ہے۔