نبی رحمت کی رحمت کے کچھ پہلو

170

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

؎قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہؐ کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے، یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتی ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لیے رحمت قرار دیا گیا۔ اس تعبیر کی وسعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان ومقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ وزمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصے کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعے کے مطابق بھی ہے، آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشے میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے۔
ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الہٰ کا تصور دیا، خدا کو ایک ماننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد وانکار اور شرک ومخلوق پرستی کے یہ ایک انقلابی عقیدہ ہے، خدا کا انکار انسان کو غیر ذمے دار، گناہوں کے بارے میں جری اور مادہ پرست بنا دیتا ہے، کیوں کہ اسے جواب دہی کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور دنیا اس کے لیے محض عشرت کدۂ حیات ہوتی ہے، گویا انسان خدا کی بندگی سے آزاد اور لذت وعیش کا غلام بن جاتا ہے، شرک انسانیت کی تذلیل ہے، کیوں کہ مشرک ادنیٰ سے ادنیٰ شے کے سامنے بھی پیشانی جھکانے میں کوئی حیا محسوس نہیں کرتا، مشرک خدا کے بجائے مخلوق سے نفع ونقصان کی اْمیدیں وابستہ کرلیتا ہے، اس لیے اس میں تو ہم پرستی پیدا ہوتی ہے، اسے قدم قدم پر نحوست اور بے برکتی کے خطرات پریشان کرتے رہتے ہیں اور معمولی چیزوں کے خوف سے بھی اس کا دل بیٹھا رہتا ہے، اللہ کے ایک ہونے کے تصور سے انسانیت کی تکریم اور اس کا اعزاز متعلق ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس کی پیشانی غیر اللہ کے سامنے جھکنے سے ماورا ہے اور خدا نے اس کو پوری کائنات پر فضیلت بخشی ہے، اسی لیے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں سے بھی آدمؑ کو سجدہ کرایا، اوراس طرح انسانی کرامت وشرافت کو ظاہر فرما دیا، عقیدۂ توحید نے انسانیت کو اوہام پرستی سے نجات دلائی، کیوں کہ توحید پر ایمان رکھنے والا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مخلوق اسے نفع ونقصان پہنچانے سے عاجز ہے، توحید کا عقیدہ انسان کے اندر خدا کی محبت اور خدا کا خوف پیدا کرتا ہے اور یہ خشیت اور خدا کے راضی کرنے کا جذبہ، فرائض کی ادائیگی اور ذمے داری کا احساس پیدا کرتی ہے اور وہ دنیا کو قصر عشرت سمجھنے کے بجائے محل امتحان سمجھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے، اس لیے توحید کا عقیدہ انسانیت کے لیے بہت بڑی نعمت اور سامان رحمت ہے، جو رسول اللہؐ کے ذریعے انسانیت کو حاصل ہوا۔
رسول اللہؐ کی صفتِ رحمت کا دوسرا مظہر ’’انسانی وحدت‘‘ کا تصور ہے، آپ کی بعثت سے پہلے قریب قریب دنیا کی تمام تہذیبوں اور مذاہب میں انسان اور انسان کے درمیان تفریق اور کچھ لوگوں کے پیدائشی طور پر معزز اور کچھ لوگوں کے حقیر ہونے کا تصور موجود تھا۔
رسول اللہؐ نے انسانی وحدت کا تصور پیش کیا اور پیدائشی طور پر افضل وبرتر اور حقیر وکمتر ہونے کے تصور کو رد فرما دیا، آپؐ نے صاف اعلان کیا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر محض رنگ ونسل کی وجہ سے کوئی فضیلت نہیں، بلکہ فضیلت کا معیار انسان کا تقویٰ اور اس کا عمل ہے، اس اعلان نے عرب کے معزز قبائل اور حبش وروم کے بلال وصہیبؓ کو ایک صف میں کھڑا کر دیا، بلکہ یہ عجمی نژاد غلام جو کبھی حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، زعمائے عرب کے لیے وجہ رشک بن گئے اور سیدنا عمر فاروقؓ جیسے فرماں روا بھی انہیں اپنے ’’سردار‘‘ کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے، یہ آپ ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہی تفریق اور امتیاز کی زنجیریں کٹنے لگیں، انسانی مساوات کے نعرے ہر سو بلند ہوئے اور دنیا کی مظلوم ومقہور قوموں کو پیدائشی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی اور اگر کہیں کسی انسانی گروہ نے اپنی شقاوت اور جور وجفا سے اس ظلم کے سلسلے کو جاری بھی رکھا، تو ان کو ہر طرف سے طعن وتشنیع کے الزام سننے پڑے اور مظلوموں کو ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ یہ آپ کی رحمت عامہ کا ایسا پہلو ہے کہ کوئی صاحب بصیرت اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔
اس وحدت انسانی کے تصور نے زندگی کی تمام شعبوں پر اپنا اثر ڈالا، تمام لوگوں کے لیے ہر طرح کے پیشے کا دروازہ کھل گیا اور پیشوں کی تحقیر وتذلیل کا تصور ختم ہوا، علم کی روشنی عام ہوئی اور ہر ایک کے لیے تعلیم کا دروازہ کھلا، سماجی زندگی میں ہر ایک کے لیے باعزت طریقے پر زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم ہوا، جرم وسزا کے باب میں انصاف کا قائم کرنا ممکن ہوا اور ہر ایک کے لیے اپنی تہذیب اور اپنی روایات کا تحفظ ممکن ہو سکا، لیکن اس انسانی وحدت کے تصور نے سب سے زیادہ اثر سیاسی نظام پر ڈالا، اسلام سے پہلے پوری دنیا کے سیاسی اْفق پر ملوکیت کا تصور چھایا ہوا تھا اور اس کے مقابلے میں کوئی اور نظام سیاست عملاً موجود نہیں تھا، ظہور اسلام کے وقت جتنی معلوم طاقتیں تھیں وہ سب ملوکیت کی نمائندہ تھی، روم میں بادشاہت تھی، ایران میں بادشاہت تھی، حبش میں بادشاہت تھی، یمن میں بادشاہت تھی، ہند وچین کے علاقوں میں بھی چھوٹے بڑے راجا تھے، غرض پوری دنیا بادشاہت کے آمرانہ نظام اور پنجۂ استبداد کے تحت تھی، یہاں تک کہ یونان کے فلاسفے نے جس جمہوریت کا نقشہ پیش کیا تھا، اس میں بھی ’’اشراف‘‘ کی حکومت کا تصور تھا اور عام لوگوں کے اقتدار میں شرکت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
رحمت نبوی کا تیسرا اہم پہلو علم کی حوصلہ افزائی ہے، آپ جس قوم وسماج میں تشریف لائے وہاں لوگ اس بات کو سرمایۂ افتخار سمجھتے تھے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، وہ بہت ہی فخر کے ساتھ اپنے ’’اُمی‘‘ ہونے کی بات کہتے تھے، آپؐ نے تعلیم وتعلم کی حوصلہ افزائی فرمائی اور علم کو بلا امتیاز وتفریق ہر طبقے کے لیے عام فرمایا، پھر آپ نے علم کے معاملے میں دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں کی، بلکہ ہر وہ علم جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہو خدا سے اس کے لیے دعا فرمائی اور فرمایا کہ علم وحکمت کی جو بات جہاں سے مل جائے، اس کی طرف ایسا لپکنا چاہیے، جیسے انسان اپنی گمشدہ چیز کے لیے لپکتا ہے۔
آپؐ نے مسلمانوں کے بچوں کو بدر کے مشرک قیدیوں سے تعلیم دلائی اور مدینہ میں یہودیوں کی درس گاہ ’’بیت المدراس‘‘ میں تشریف لے گئے، جس سے علم کے باب میں آپ کی فراخ قلبی اور کشادہ چشمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ علم کا دور دورہ ہوا، بلکہ غیر سائنٹفک کی جگہ سائنٹفک فکر کا غلبہ ہوا اور توہمات کی رنجیریں کٹیں، شرک چونکہ مخلوقات کو معبود کا درجہ دیتا ہے اور جو معبود ہو اس کی عظمت اور اس کا احترام تحقیق وتجسس میں مانع بن جاتا ہے، اس لیے وہ علمی ترقی اور تحقیق وسائنس کے ارتقا میں رکاوٹ بن جاتی ہے، توحید چونکہ مخلوقات کے معبود ہونے کی نفی کرتی ہے، اس لیے کائنات کی تمام اشیا پر غور وفکر، بحث وتحقیق اور تفحص وتجسس کا راستہ کھلتا ہے اور انسان علم میں جتنا آگے بڑھتا جائے اور کائنات کے حقائق پر جو پردے پڑے ہوئے ہیں، ان کو جس قدر اٹھاتا جائے وہ اسی قدر توہمات سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔