فضائل تہجد

274

مفتی محمد وقاص رفیع

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اِس دْنیا میں صرف اور صرف اپنی عبادت، اپنی معرفت اور اپنی پہچان کروانے کے لیے بھیجا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اْس کی بندگی کرکے اْس کی ذات کو پہچان کر اور اْس کی معرفت حاصل کرکے اِس دْنیا میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرلے اور پھر آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی عیش و عشرت اور راحت آرام میں بسر کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیاؑ، صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدینؒ نے اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی، معاشرت و معیشت، غمی و خوشی، تنگ دستی و فراوانی اور اپنی حرکات و سکنات اور نشست و برخاست کے ہر وقت اور ہر لمحے میں اِس عظیم مقصد کو اپنے سامنے رکھا اور اس کے اختیار کرنے میں ہمیشہ وہ کوشاں رہے، وہ دْنیوی کاروبار، زراعت و تجارت، صنعت و حرفت وغیرہ بھی کرتے تھے، لیکن اْن کے دِل ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت و الفت میں مست و سرشار رہتے اور کسی وقت بھی اْس کی یاد سے غافل نہیں رہتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے۔ ’’ترجمہ: (یہ وہ لوگ ہیں کہ) جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے، نہ نماز قائم کرنے اور نہ زکوٰۃ دینے سے‘‘۔ ( النور: 24/37)
اللہ تعالیٰ نے اِنہی لوگوں کا قرآن مجید میں مختلف انداز میں ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’اْن کے پہلو (رات کے وقت) اپنے بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈر اور اْمید (کے ملے جلے جذبات) کے ساتھ پکار رہے ہوتے ہیں اور ہم نے اْن کو جو رزق دیا ہے وہ اْس میں سے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں، چنانچہ کسی متنفس کو کچھ پتا نہیں کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان اْن کے اعمال کے بدلے میں میں چھپا کر رکھا گیا ہے‘‘۔ (السجدۃ: 32/16، 17)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’وہ رات کے وقت کم سوتے تھے، اور سحری کے اوقات میں استغفار کرتے تھے‘‘۔ (الذاریات:51/18)
احادیث مبارکہ میں بھی تہجد کی نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل اور مختلف قسم کی ترغیبات وارد ہوئی ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرمؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپؐ کی طرف دوڑنے لگے اور کہنے لگے کہ نبیؐ تشریف لائے ہیں، میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا؟ تاکہ دیکھوں (کہ واقعی آپؐ نبی ہیں یا نہیں؟) میں نے آپؐ کا چہرہ مبارک دیکھ کر کہا کہ یہ چہرہ جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا، وہاں پہنچ کر جو سب سے پہلا ارشاد نبی اکرمؐ کی زبان سے سنا، وہ یہ تھا کہ لوگو! آپس میں سلام کا رواج ڈالو اور (غربا کو) کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات کے وقت جب سب لوگ سوجائیں (تہجد کی) نماز پڑھا کرو، تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے‘‘۔ (قیام اللیل)
سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایسے بالا خانے ہیں (جوآبگینوں کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں) اْن کے اندر کی سب چیزیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: جو اچھی طرح سے بات کریں اور (غربا کو) کو کھانا کھلائیں اور ہمیشہ روزے رکھیں اور ایسے وقت میں رات کو تہجد پڑھیں جب لوگ سو رہے ہوں‘‘۔ (ترمذی، ابن ابی شیبہ)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’رمضان کے روزے کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا روزہ محرم کا ہے۔ اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات (کے وقت تہجد) کی ہے‘‘۔ ( مسلم، مشکوٰۃ)
پرانے وقتوں میں نماز تہجد بڑی کثرت اور اہتمام کے ساتھ پڑھنے کا رواج تھا، گھر کے بڑے بوڑھے، مختلف افراد، مرد و عورتیں رات کے پچھلے پہر بستر چھوڑتے، ٹھنڈے گرم پانی سے وضو کرتے، پھر مرد حضرات مسجد کی طرف چل دیتے اور خواتین گھروں میں مخصوص جگہوں پر تہجد کی نماز ادا کرنے کا اہتمام کرتیں اور یہ لوگ سپیدۂ سحر نمودار ہونے تک اسی طرح اپنے محبوب حقیقی کے ساتھ راز و نیاز میں ہمہ تن مصروف اور منہمک رہتے، لیکن آج بہت دْکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جب سے نت نئی ایجادات ٹی وی، وی سی آر، ڈش اور انٹر نیٹ بالخصوص فیس بک وغیرہ متعارف ہوئی ہیں، تب سے ہم مسلمانوں سے ہمارا یہ دینی ورثہ مکمل طور پر چھوٹ گیا ہے، اور ہمارے نوجوان لڑکے، لڑکیاں رات گئے تک اِن نت نئی ایجادات سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور پھر جب سحری اور تہجد کا مبارک وقت شروع ہورہا ہوتا ہے تب اِس نسل نو کے لہو ولعب کا وقت ختم ہو رہا ہوتا ہے اور اِن کی آنکھیں میٹھی نیند کے ہچکولے کھارہی ہوتی ہیں۔