جاپان کے سمندر سیر و تفریح کے لیے جانے والا پانی کا جہاز ’’ڈائمنڈ پرنس‘‘ پھنس چکا ہے کیونکہ کرونا وائرس کے ممکنہ پھیلنے کے خدشات کے تحت کوئی بھی ملک اس کو اپنے ساحل پر اترنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ رپورٹ کے مطابق اس جہاز میں 328 امریکی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ جن کو امریکا نے واپس لانے کا فیصلہ کر لیا یہ جانتے ہوئے کہ جہاز میں کرونا وائرس کی وبا پھیل چکی ہے۔ ٹوکیو میں موجود امریکا کے سفارت خانے نے مسافروں کو آگاہ کر دیا تھا کہ کوئی بھی ایسا مسافر جس کا ٹیسٹ رزلٹ کرونا کے لیے پوزیٹو آیا وہ امریکا واپسی کے جہاز میں داخل نہیں ہو پائے گا۔ مگر اس کے برخلاف جب تمام مسافر ’’ڈائمنڈ پرنس‘‘ سے باحفاظت نکال کر بس میں سوار کرا دیے گئے تا کہ ائیرپورٹ لائے جائیں جہاں ان کے لیے دو کارگو جہاز امریکا روانگی کے لیے انتظار کر رہے تھے تو معلوم ہوا کہ ان مسافروں میں سے چودہ لوگوں کو کرونا وائرس کے لیے ٹیسٹ رزلٹ پوزیٹو آیا ہے۔ اس کے بعد امریکا کی حکومت نے ہیلتھ آفیشلز سے مشاورت کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ کرونا وائرس مسافروں کو بھی وطن واپسی کی اجازت دے دی جائے۔ ان مسافروں میں ابھی کرونا وائرس کی علامات نظر نہیں آسکی ہیں۔ یہ فیصلہ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کہ جس جہاز سے مسافروں کو واپس بلوایا گیا وہاںکورونا وائرس تیزی سے پھیلنے کا خطرہ تھا۔
جبکہ دوسری طرف پیر کو ایپل کی فون کمپنی نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئی فون کی فروخت میں مندی دیکھ رہے ہیں اور اس کی اصل وجہ کرونا وائرس ہے۔ اس اعلان سے دوسری طرف چین نے اپنی مریضوں کی تعداد بتائی جو ایک دن میں ستر ہزار سے زائد ہے۔ جب کہ مرنے والوں کی تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے۔ آئی فون بنانے کی زیادہ تر کمپنیز چین میں موجود ہیں جہاں کرونا وائرس کی وجہ سے ہر طرح کا کاروبار رکا ہوا ہے۔ حالانکہ آئی فون بنانے کی کوئی فیکٹری ہیوبی شہر میں نہیں ہے جہاں پر وبا کا زیادہ اثر ہے لیکن پھر بھی سفر میں پابندی کی وجہ سے ملک بھر میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایپل کمپنی کے مطابق ان فیکٹریز میں آئی فون کی پروڈکشن میں کافی وقت لگ رہا ہے جب سے چین میں چاند کے نئے سال کی چھٹیاں ختم ہوئی ہیں ایپل کمپنی نے یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جہاں چین میں آئی فون بنانے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے وہیں آئی فون کی فروخت بھی سب سے زیادہ چین میں ہی ہوتی ہے۔ چین دنیا بھر کی سلیکون کمپنیوں کے لیے بہترین مارکیٹ ہے۔ ایپل کا یہ اعلان اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہ تمام بڑی کمپنیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی کا کام کرے گا کہ دنیا بھر کی اکانوی پر کرونا وائرس کی وجہ سے اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم اپیل کی کمپنی کا کہناہے کہ کیونکہ ان کی بنیاد اچھی ہے اس لیے یہ رکاوٹ ان کی کمپنی کو زیادہ دیر متاثر نہیں کر پائے گی۔
کیا کمبوڈیا کے پرائم منسٹر کرونا سے ڈرتے نہیں ہیں؟ کیا ان کی یہ حرکت وبا کو پھیلانے کا باعث بنے گی؟
کمبوڈیا کے پرائم منسٹر نے بحری جہاز کو اپنے ساحل پر اترنے کی اجازت دی اورمسافروں کو خوش آمدید کہا لیکن پرائم منسٹر نے ایسا کرتے ہوئے ناصرف خود ماسک نہیں پہنا بلکہ جن لوگوں نے ماسک پہن رکھا تھا ان کو بھی حکم دیا گیا کہ ماسک اتار دیا جائے کیونکہ مسافروں میں کرونا وائرس کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دوسرے دن امریکا کے سفارت کار پیٹرک مارفی جو کہ کمبوڈیا میں موجود تھے وہ بھی مسافروں سے ملنے اپنی فیملی کو لے کر گئے اور انہوں نے بھی ماسک پہننے کی زحمت نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کمبوڈیا کی حکومت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ایسے حالات میں اپنا بحری اڈہ مسافروں کے لیے کھولا جب کہ اس سے پہلے پانچ دوسرے ملکوں نے جہاز کو اپنے ساحل پر لنگرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس واقعے کے بعد مسافروں میں سے ایک مسافر میں کرونا وائرس کی تصدیق نکل آئی جس سے ہیلتھ آفیشلز پریشان ہیں کہ کہیں انہوں نے اپنے ملک کے دروازے وبا کے لیے کھول تو نہیں دیے۔ کمبوڈیا نے اپنے تمام مسافر شہریوں میں کرونا کا ٹیسٹ کر لیا ہے لیکن جو مسافر دوسرے ملکوں کے اس بحری جہاز میں سوار ھے ان کا معلوم کانا اس مرحلے میں تقریباً ناممکن ہے۔