چالیس برس کا قصہ

230

 یوں لگتا ہے کہ چالیس برس پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ چالیس سال نہیں ابھی کل ہی کی بات ہو جب بی بی سی اور وائس امریکا افغانستان میں سوویت فوج کی آمد کی خبریں نمک مرچ لگا کر سنا رہے ہوں۔ ریڈیو پاکستان مہاجرین کے قافلوں کے پاکستان میں داخل ہونے کی خبریں دے رہا ہو۔ اونٹوں کے قافلے آن واحد میں پاکستان کے طول وعرض میں پھیل رہے ہوں۔ اونچے لمبے افغان مخصوص لباس پہنے گلی گلی عزت وتکریم کا باعث بن رہے ہوں۔ ہر شخص ان سے ہمدردی کا اظہا کر رہا ہو۔ ایسا ہی ایک سرو قد سرخ و سفید افغان چاچا چنار گل کپڑوں کی گٹھڑی اُٹھائے گھر گھر ’’جاپانی کپڑا‘‘ کی صدائیں بلند کر رہا ہو اور وہ ہمارے دالان میں فرمائش پر بنوائی گئی کڑک چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے رزم گاہ کی کہانیاں سنارہا ہو۔ ہمارے والد اسے بہادر قوم کا بہادر انسان سمجھ کر اور بے وطن جان کر وی آئی پی پروٹول دیتے کیونکہ وہ خود مہاجرت کا دکھ دسویں جماعت ہی میں جھیل چکے تھے جب کشمیر میں مسلم کانفرنس اور ایم ایس ایف کے پلٹ فارم سے پاکستان کے نعرے لگاتے لگاتے اپنے گھر سے بہت دور نکل آئے۔ یوں لگ رہا ہے کہ چنار گل راکٹ لانچر کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہو کہ ایک ایسا ہتھیار بھی ہے جس کی گولی آگے جاتی ہے اور آگ کا شعلہ پیچھے سے نکلتا ہے۔ ہم اسکول کے بچے کان اور منہ کھول کر چاچا چنار گل کی باتیں حیرت سے سن رہے ہوں۔
افغان آئے تو انہوں نے جفا کشی اور محنت کو نیا مفہوم دیا۔ جب بھی کسی کو مزدور کی ضرورت ہوتی تو ہر شخص کی ترجیح ہوتی کہ وہ یہ کام افغان باشندے سے لے کیونکہ دیانت اور محنت ان پر ختم تھی۔ کاروباری معاملات میں بھی اپنی دیانت سے ساکھ قائم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ افغان صوبے کے پکتیا کے محمد خان کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں جو قالین کا کام کرتا تھا۔ ہماری والدہ قالین کی خریداری کے لیے محمد خان کی آمد کا مہینوں انتظار کرتیں اور محمد خان افغان جنگ میں حصہ لے کر آتا تو دروازے ہی سے آواز لگاتا ماں جی قالین آگیا ہے۔ والدہ کہتیں کہ محمد خان آپ مہینے کی آخری تاریخوں میں کیوں آتے ہو۔ محمد خان یہ کہتے ہوئے قالین پھینک کر چلا جاتا ماں جی پیسوں کی خیر ہے آپ قالین رکھ لو۔ افغانوں کو ہم نے پائوں رکھنے کے لیے زمین اور آسمان کی صورت محفوظ چھت تو فراہم کی مگر وہ بھکاری نہیں تھے انہوں نے اس ملک کو اپنے خون جگر سے سنوارا ہے۔ وہ ہماری قومی کاہلی، کہولت، سہل پسندی اور کام چوری سے پُر ماحول میں محنت اور سخت کوشی کی علامت بن کر جیے۔ اب تو خیر بہت سے پاکستانیوں کی طرح ایک افغان گھرانے سے ہماری قرابت داری بھی ہے اور ان کی مشکلات کا کسی حد تک اندازہ ہے۔
گزشتہ برس پاکستان میں پیدا ہونے والی افغان اور برطانوی شہریت کی حامل اپنی بھابھی کی پاکستان آمد پر مجھے انٹرویوز اور وضاحتوں کے کئی ادوار سے گزارنا پڑا۔ چند دن قبل میڈیا نے یاد دلایاکہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے چالیس برس مکمل ہو گئے ہیں اور اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل انٹونیو گوترس نے چالیس سالہ تقریبات کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں ایک اہم کانفرنس سے انٹونیو گوترس کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی خطاب کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مہاجرین کی میزبانی کرنے والا دوسرا ملک قرار دے کر پاکستان کی خدمات کی کھل کر تعریف کی۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا پناہ گزینوں کی مدد کے لیے عالمی تعاون کم رہا۔ انہوں نے قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تم سے کوئی پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دیا کرو۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں بہت اہم باتیں کیں۔ انہوں نے افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے جو کچھ ہمارے بس میں ہے کر رہے ہیں۔ افغانستان کے پناہ گزینوں کی بے گھری کو چالیس سال ہوگئے آج ملک کے طول وعرض میں پھیلے ان مہاجرین کی تیسری نسل جوان ہو رہی ہے۔ افغانستان میں نقل مکانی کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کابل میں اقتدار کی محلاتی سازشیں عروج پر پہنچ گئی تھیں اور پرچم اور خلق کی رسہ کشی نے خانہ جنگی کو جنم دینا شروع کیا تھا۔ جس پر کابل کے تخت پر براجمان ایک دھڑے نے سوویت یونین سے مدد طلب کی تھی اور اسی درخواست کو بہانہ بنا کر سوویت افواج ٹینکوں پر بیٹھ کر افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ جسے افغانستان میں ایک مضبوط دھڑے نے سوویت قبضے سے تعبیر کرکے جہاد کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس سوچ کی آبیاری پہلے پاکستان اور بعد ازاں امریکا نے بھی کی تھی اور یوں افغانستان ایک بڑی عسکریت کا مرکز بن گیا تھا۔ افغانستان کی بہت بڑی آبادی نے عسکریت کا ساتھ دیا اور جنگ کے باعث لاکھوں افغانوں نے پاکستان اور ایران میں پناہ کے لیے داخل ہونا شروع کیا تھا۔ ایک مدت تک عالمی ادارے ان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرتے رہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دلچسپی کم ہوگئی۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کو ملک کے طول وعرض میں آزادانہ نقل وحمل اور تلاش رزق کی اجازے دی اور خیبر سے کراچی تک یہ جفاکش اور محنتی لوگ اپنا پسینہ بہا کر جہاں پاکستان کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے وہیں باعزت رزق بھی کماتے رہے۔ یہ پناہ گزین پاکستانی معاشرے میں گھل مل گئے اور سماجی سطح پر انہیں کسی تفریق کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ گوکہ پاکستان میں یہ عمومی تاثر ہے کہ پناہ گزینوں کی اس قدر بڑی تعداد کے باعث پاکستان منشیات، کلاشنکوف کلچر کی زد میں آیا اور یہاں کے مقامی لوگوں کا کاروبار بھی متاثر ہوا۔ اس کے باجود پاکستان کی ریاست اور سماج نے افغان پناہ گزینوں کے ساتھ کوئی تفریق روا نہیں رکھی۔ بہت سے پناہ گزینوں نے پاکستان کے شناختی کارڈ حاصل کیے، شادیاں کیں اور دونوں ملکوں میں کاروبار کا سلسلہ شروع کیا۔ خرابی اس وقت ہوئی جب طالبان اقتدار کے خاتمے کے بعد کابل میں پاکستان مخالف سوچ غالب آگئی اور اس سوچ کو امریکا اور بھارت کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ کابل حکومت، امریکا اور بھارت نے افغان مہاجرین کو ایک لیوریج کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ یہ افغان پناہ گزینوں پر سب سے بڑا ظلم ہوا جو کابل کے حکمرانوں نے ڈھایا۔ جس کے بعد پاکستان کو اپنے قوانین پر عمل کرکے پناہ گزینوں کے حوالے سے کچھ سخت فیصلے کرنا پڑے۔
افغانستان میں طالبان اور امریکا ایک امن سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے ہیں جس کے بعد افغانستان میں امن کے آثار بھی پیدا ہو رہے تھے مگر افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد تنازع ایک نیا رخ اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا طالبان سمجھوتے کے بعد افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افغان حکمرانوں کو اب پناہ گزینوں اور خود اپنے بے خانماں عوام پر رحم کرتے ہوئے بھارت کا دم چھلا بننے کے بجائے طالبان کے ساتھ ایسا پائیدار سمجھوتا کرنا چاہیے جس سے یہ ملک خانہ جنگی کے عذاب سے نکل آئے اور امن کی فضاء قائم ہو سکے۔ پناہ گزینوں کی واپسی کی یہی ایک صورت باقی رہ گئی ہے۔ تب بھی جنہیں جانا ہوگا وہ جائیں گے باقی اپنے باپ دادا کی طرح اسی سرزمین کا رزق ہوجائیںگے کہ یہ بھی ایک تاریخ کا ایک رخ اور ایک اٹل حقیقت ہے۔