موجودہ حالات میں انشورنس کی افادیت بڑھ گئی ہے،میاں زاہد حسین

415

انشورنس ذاتی اور کاروباری نقصان میںتلا فی کا بہترین ذریعہ ہے۔

حکومت توجہ دے تو یہ شعبہ پوٹینشل کے مطابق ترقی کر سکتا ہے۔

کراچی 

پاکستان بزنسمین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مےن اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملکی ترقی میں انشورنس کے شعبہ کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں انشورنس کی ضرورت اور اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے اس لئے انشورنس کمپنیوں کو چیلنجز سے نمٹے کے لئے اپنی استعداد بڑھانا ہو گی۔ صنعت اور زراعت سمیت معیشت کا ہر شعبہ زوال پذیر ہے ، کاروبار بند ہو رہے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں

جسکی وجہ سے لائف، لائیواسٹاک، کراپ، جنرل اور دیگر اقسام کی انشورنس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے انشورنس کے متعلق ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام، کاشتکاروں، صنعتکاروں اورتاجروں کو مسائل کا سامنا ہے اور انشورنس انکا نقصان کم کرنے کا سب سے بہتر ذریعہ ہے جس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں انشورنس پریمیم جی ڈی پی کا0.7 فیصد،امریکہ میں30 فیصد، بھارت میں ساڑھے تین فیصد، بنگلہ دیش میں 0.9 فیصد اور سری لنکا میں1.2 فیصد ہے یعنی اس میدان میں بھی ہم خطے کے ممالک سے بہت پیچھے ہیں جبکہ انشورنس کے ذریعے کمائے ہوئے فنڈز کا بڑا حصہ ری انشورنس کی وجہ سے جرمنی،

ملیشیاءاور سنگاپور جیسے ممالک کی بڑی کمپنیوں کو منتقل ہو جاتا ہے جسکی وجہ مقامی کمپنیوں کی استعدادمیں کمی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں انشورنس کی طرف رجحان میں کمی میں جہاں انشورنس کمپنیوں کی اپنی کوتاہی شامل ہے وہیں اس شعبہ کے متعلق معلومات کی کمی، مڈل کلاس کی کمزور مالی حالت اور مذہبی عقائد کا بھی دخل ہے جس کا حل تکافل میں ہے جس کو مناسب انداز میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے ۔بڑھتی ہوئی اقتصادی بدحالی سے بھی اس شعبہ پر منفی اثر پڑا ہے جبکہ پراڈکٹس کی کمی ، کئی اہم شعبوں کو نظر انداز کرنا، صارفین کی ضروریات کو نہ سمجھنا اور تیزی سے بدلتے ہوئے مقامی اور بین الاقوامی حالات میں ایڈجسٹمنٹ جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جو انشورنس کمپنیاں دیہی آبادی اور دیہی معیشت پر توجہ نہیں دے رہیں وہ جی ڈی پی میں بڑا حصہ رکھنے والے شعبہ کو نظر انداز کر رہی ہیںجہاں ملک کے60فیصد لوگ رہتے ہیں۔پاکستانی انشورنس کمپنیوں نے سی پیک جیسے بڑے منصوبے سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا ہے جس پر انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان غور کرے اور حکومت کو قابل عمل تجاویز دے۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹری بھر پور تعاون کرے گی۔انھوں نے کہا کہ80 ارب روپے کا کاروبا رکرنے والی کمپنیوں کا پوٹینشل800 ارب روپے سے زیادہ ہے جس کو حقیقت بنانے کے لئے حکومت کو اس شعبہ کی سرپرستی کرنا ہو گی،SECP کو قوانین بہتر بنانا ہونگے جبکہ وفاقی انشورنش محتسب کو مزید فعال کردار ادا کرنا ہوگا اور آگہی بڑھانا ہو گی تاکہ اس شعبہ کے متعلق شکایات کم ہو سکیں جو اسکی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔2019 میں اس ادارے نے 74869 شکایات نمٹائی ہیں

ایک مثال ہے۔ انھوں نے کہا کہ انشورنس سماجی بہبود کا ایک موثر ذریعہ ہے جس کے مناسب استعمال کے ذریعے کروڑوںافراد کو تحفظ دینے کے ساتھ انکی زندگیوں میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔موجودہ حکومت کاانصا ف صحت کارڈ اسکی بہترین مثا ل ہے ۔ انشورنس کاروبار ، گھرانوں اور خاندانوں کو تحفظ فراہم کرنے کا آزمودہ ذریعہ ہے جو مغربی ممالک میں مقبول ہے مگرکئی مشرقی ممالک میںابھی اسے صحیح طریقہ سے نہیں سمجھا گیا ہے جس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کوششیں کرنا ہونگی۔