یہ تو وہی لگتا ہے!!!

264

ایک آدمی کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ اکثر کہتا رہتا تھا کہ غلیل بنائوں گا چڑیاں ماروں گا۔ شاید اس طرح وہ اپنی معیشت مستحکم کرنا چاہتا ہوگا۔ سارا گھر اس رویے سے پریشان تھا۔ بالآخر بیرون ملک سے علاج دریافت ہوگیا۔ انٹرنیشنل مائنڈ فیلیٹر (آئی ایم ایف) نے ایک ڈاکٹر بھیجا اس نے معیشت بہتر بنانے کے متبادل ذرائع بتائے۔ اسی دوران ایک مقامی ڈاکٹر نے کہا کہ چھ ماہ تک اس کی کسی بات پر اعتراض نہ کرنا صرف مثبت باتیں بولنا، کہنا اور لکھنا۔ مریض وی آئی پی تھا اس لیے چھ ماہ تک لگ کر علاج کیا گیا۔ اس دوران ایک ڈاکٹر اور بلایا گیا جس کو خزانوں کا نگراں بنادیا گیا۔ پھر ایک مشیر پر تنازع ہوا یعنی کنسلٹنٹ پر۔ بالآخر وہ بھی مقرر ہوگیا۔ چھ ماہ گزر گئے۔ چھ ماہ کی شرط لگانے والے مقامی ڈاکٹر بھی گزر گئے یعنی چلے گئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ مریض ٹھیک ہوگیا ہے۔ چناں چہ اسے ڈاکٹروں نے صحت مند قرار دے دیا۔ (ڈاکٹر بھی مریض کو صحت مند اور صحت مند کو مریض بنانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں)۔ چناں چہ مریض نے آزادی کا سانس لیا، لمبا سانس کھینچنے کے بعد زور دار نعرہ لگایا، چڑیا ماروں گا۔ سب سہم گئے لیکن اسے انگریزی میں منتخب کرنے والوں نے معاملہ کچھ کچھ سمجھا اور اسے تھوڑی سی ڈوز اور دی۔ اس کے بعد بظاہر افاقہ ہوا۔ ایک دن اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا پھر کہنے لگا کہ ایک نہیں دو ارب درخت لگائوں گا۔ اب لوگ خوش ہوگئے کہ معاملہ ٹھیک ہوگیا لیکن چند روز بعد اس نے وہی کہا کہ درخت لگائوں گالکڑی کاٹوں گا۔ ربر باندھوں گا، غلیل بنائوں گا، چڑیا ماروں گا۔ اور یہ بات اس نے دنیا بھر کے مہمانوں کے سامنے کہنا شروع کردی۔ اسے لانے والے اور سر پر بٹھانے والے خود سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اسے تماشے کے ذریعے لانے والوں کو نیا تماشا ہاتھ آگیا۔تو کیا یہ باتیں آپ لوگوں کو معلوم نہیں تھیں؟۔ ہمیں بھی معلوم تھیں۔ لیکن بس یوں ہی صفحہ کالا کرنے کو کچھ تو لکھنا تھا۔ آپ لوگ بھی تو روز خبرنامے میں ایک جیسی بات سنتے ہیں اور پھر بھی بور نہیں ہوتے۔ اسے بھی پڑھ لیا تو کیا ہوا۔ خدارا آخری جملے کو ابھی سے نہ پڑھیں وہ شروع میں لکھ دیا گیا ہے۔ ہوا یہ کہ ہفتے کے روز اخبار میں پھر یہ خبر پڑھی کہ عورتوں کو گھر چلانے کے لیے گائے، بھینس اور بکریاں دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پورے ملک میں پناہ گاہیں بنیں گی، کوئی بھوکا اور سڑک پر نہیں سوئے گا۔ غریبوں کو عدالت جانے کے لیے وکیلوں کی فیس دیں گے، وزیراعظم نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت ہر سال 50 ہزار وظیفے دیں گے، ہر ماہ 80 ہزار لوگوں کو بلاسود قرضے دیں گے۔ میرا کاروبار میری آمدنی اسکیم کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔ اس موقع پر احساس کے مارے ثانیہ نے بھی نشتر چبھویا اور کہا کہ غریبوں کو ان کے پائوں پر کھڑا کریں گے۔ غریب آس کرکس قدر خوش ہوئے ہوں گے اس کا احساس کسی کو نہیں ہوگا صرف احساس کے مرض میں مبتلا لوگ ہی اس کا احساس کرسکتے ہیں۔ جس غریب کاشت کارسال بھر کی فصل پہلے ہی بک چکی ہوتی ہے۔ وڈیرے سے منتیں کرکے گزارے کی گندم اور راشن لیتا ہے۔ بیماری کا تصور نہیں ہے، یعنی وہ بیمار ہی نہیں ہوتا۔ ہوجائے تو بتاتا نہیں کیوں کہ ڈاکٹر، دوائیں، علاج اور آپریشن اس کے تصور ہی میں نہیں۔ ایک بھینس، ایک لنگر خانہ، ایک پناہ گاہ یقینا 70 فی صد دیہی آبادی کے ہر گائوں میں کافی ہوں گے اس کے بعد سب اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ باتیں وزیراعظم عمران خان کچھ دن قبل بھی کرچکے ہیں۔ وہ ترکی کی برعظیم پر 6 سو برس حکمرانی کی خبر بھی دے چکے ہیں۔ ان کے دانشوروں کے بقول چوں کہ بابر ترکی میں پیدا ہوا تھا اس لیے ترکوں نے حکمرانی کی۔ اور اس کا کیا کریں کہ شیرشاہ سوری بہار میں پیدا ہوا تھا تو کیا بہار نے ہندوستان پر حکمرانی کی تھی۔ خیر یہ تو احساس سے عاری بات ہوگئی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ کسی درجے میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو دو بھینسیں دے دی جائیں اور دو مرغیاں چند انڈے تو اس کی معیشت سدھر جائے۔ تاریخ کی آنکھوں نے تو وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ایک صحابی تنگی کا شکار تھے انہیں نبیؐ نے دوسری شادی کا مشورہ دیا پھر تیسری کا اور تیسری جس خاتون سے ہوئی تو وہ اناج چھاننے والی چھاج یا سوپ بنانے کی ماہر تھی۔ تین خواتین مل کر سوپ بناتیں شوہر بازار جا کر بیچتا اور چھ ماہ میں خوشحالی آگئی۔ لیکن مدینہ کے والی نے مدینہ کی معیشت کے لیے اسے اصول نہیں بنایا تھا یہ انفرادی مسائل اور انفرادی حل تھے۔ اجتماعی مسائل کے حل کے لیے سودی نظام، آئی ایم ایف سے قرض، ٹیکس دینے والے پر مزید ٹیکس نہیں لگایا تھا۔ وزیراعظم عمران خان ہفتے دو ہفتے میں ایک مرتبہ بھینسوں، مرغی، انڈے والی بات ضرور کرتے ہیں۔ ان کا احساس پروگرام بھی اچھا ہے لیکن اس کو بے نظیر بھٹو کا نام ختم کرنے کے لیے کیوں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس بے نظیر پروگرام میں جو خامیاں تھیں انہیں دور کرتے اس کے بجائے پروگرام میں مزید پیچیدگیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ اعلانات تو بڑے خوش نما ہیں کہ پناہ گاہیں بننے کے بعد کوئی بھوکا اور سڑک پر نہیں سوئے گا۔ اسی طرح غریبوں کو عدالت جانے کے لیے وکیلوں کی فیس دیں گے۔ لیکن کیا یہی معیشت کی بہتری کا فارمولا ہے۔ اصل باتیں جن کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے وہ بجلی، گیس، پٹرول، ڈالر کی قیمت، ایف بی آر کے الٹے سیدھے احکامات اور حکمرانوں کا متضاد رویہ اور پرتعیش طرزِ زندگی ہے۔ وزیراعظم بھینسیں، مرغی، انڈے، پناہ گاہ، لنگر خانے وغیرہ ہی بنائیں لیکن معیشت معاشرت کو تو سدھاریں۔ پاکستان کے سلگتے مسائل پر تو بات کریں، کشمیر ہاتھ سے نکلا جارہا ہے اور یہاں سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم کشمیریوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ تو کشمیریوں کو کیا مل رہا ہے۔ ہر کچھ روز بعد انڈے مرغی کی باتیں اور پاکستان کو دنیا کی بہت بڑی معاشی قوت بنانے کی باتیں سن سن کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کو وہی مل گیا ہے۔ وہی جس کو سدھارنے کے ہر جتن کے بعد بھی یہ سننے کو ملتا تھا کہ غلیل بنائوں گا چڑیا ماروں گا۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ درخت اگائوں گا غلیل بنائوں گا چڑیاں ماروں گا۔ درخت بھی کون کتنے اگائے گا اسے نہیں پتا۔ ایسی باتیں پڑھ کر اور سن کر ہمیں یہ تو وہی ہے لگتا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے۔!!! جو بھی لگتا ہے اب بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کل پھر یہی کہہ رہا ہوگا کہ غلیل بنائوں گا چڑیاں ماروں گا۔