احتجاج، انتخابات اور غلبہ دین کی جدوجہد

336

جاوید اکبر انصاری
غلبہ دین کا مطلب ہے اسلامی ریاست کا قیام اور یہ انقلابی عمل کے ذریعہ وقوع پزیر ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ غلبہ مسلم دنیا میں 19ویں صدی سے شروع ہوا، قرون اولیٰ میں سرمایہ داری کا کوئی وجود نہیں تھا لہٰذا سرمایہ دارانہ نظاماتی تسخیر کی حکمت عملی لازماً قیاسی اور اجتہادی ہوگی۔ سرمایہ دارانہ ریاست کی داخلی تسخیر کے دوموثر ذرائع احتجاج اور انتخابات ہیں آج سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی بیرون (exterior) موجود نہیں اور سرمایہ دارانہ نظاماتی سرحدوں پر جاری جدوجہد اس کے جواز کو مجروح نہیں کرتی۔ اس جواز کو غیر معقول ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظاماتی اور طرز تضادات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے یہ ہی سرمایہ داری کو جاہلیت خالصہ ثابت کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ سرمایہ دارانہ دستوری تناظر میں ہی ایسی انقلابی جدوجہد مرتب کریں جو سرمایہ دارانہ تحکم کی شکست وریخت پر منتج ہو اسی وجہ سے ہم احتجاج اور انتخابات کو قیام ریاست اسلامی کے ذرائع کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ہم انتخابات اور احتجاج کو سرمایہ دارانہ نظام اور طرز زندگی کے انہدام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پہلے ہم اس کے استعمال کے ممکنہ مضمرات پر گفتگو کریں گے۔
انتخابی عمل میں شرکت کا ممکنہ خطرہ یہ ہے کہ انقلابی جماعت اور اس کے کارکن سرمایہ دارانہ طرز حیات اور نظام زندگی میں بتدریج ضم ہوتے چلے جائیں گے اور کسی سرمایہ دارانہ نظریہ، مسلم قوم پرستی، سوشل ڈیموکریسی، لبرل ازم کی اسلامی تاویلات مرتب کرنے لگیں اور اسلامی علمیت، روحانیت اور معاشرت سے ان کا تعلق کمزور ہوتا چلاجائے۔ انتخابی عمل سرمایہ دارانہ عدل کی اسلامی توجیہہ مرتب کیے جانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ احتجاجی عمل نوعی طور پر مسلط نہیں ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظاماتی تناظر میں جو موثر احتجاجی عمل دور حاضر میں جاری ہیں، ہانگ کانگ میں، لبنان میں، عراق میں، پیرو میں ان کے ذریعے سرمایہ دارانہ تحکم مجروح نہیں ہوتا صرف سرمایہ دارانہ حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ اسی طرح جو عالمی احتجاجی تحاریک جاری ہیں ماحولیاتی تحریک WSM وغیرہ وہ بھی سرمایہ دارانہ جواز کو چیلنج نہیں کرتیں محض سرمایہ دارانہ پالیسیوں میں تبدل کی جستجو کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایک عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ احتجاج کی طویل المدت منصوبہ بندی کی جانی چاہیے لیکن طویل المدت تیاری کے لیے طویل مدت تک سرمایہ دارانہ نظاماتی تضادات کو مہمیز دینے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی یہ تیاری محض نظریاتی اور اخلاقی (ethical) ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد ایران کے اسلامی انقلاب کا نہایت سطحی مطالعہ ہے یہ انقلابی جدوجہد آیت اللہ نوری کی شہادت سے شروع ہوگیا اور 1905 سے 1979 تک علمائے ایران امام بروجردی اور امام خمینی کی ولولہ انگیز قیادت میں ایسی ہمہ گیر سیاسی جدوجہد کرتے رہے جس کے نتیجے میں فوج، انتظامیہ اور بازار پر اسلامی انقلابیوں کا غلبہ مستحکم سے مستحکم ہوتا چلا گیا۔
کچھ زور سامراج نہ اس کے غلام کا
قبضہ ہر ایک مقام پہ بے شک امام کا
جب ایرانی عوام متحرک ہوئے تو اسلامی انقلابی ریاست کے اندر ریاست قائم کیے ہوئے تھے۔ عوامی احتجاج غیر متشددانہ تھا۔ مجاہدین اور فدائی دونوں ہتھیار بند تھے اور کئی مقامات پر شاہی لشکروں کو شکست فاش دے رہے تھے۔ پھر احتجاج صرف اسلامیوں نے برپا نہیں کیا اس میں تو وہ لبرل اور ایرانی قوم پرست بھی شریک تھے اور آخری وقت تک یہ گروہ امریکا سے داخل اندازی کی بھیک مانگتے رہے۔ علماء نے اپنی بہتر سیاسی ادارتی صف بندی اور جذباتی تحرک کی بنیاد پر سامراج اور اس کے دائیں اور بائیں بازو کے حلیفوں کو شکست فاش دی اور عوامی احتجاج پر قبضہ کرلیا۔
اس تجزیہ سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظاماتی انہدام کا ہدف حاصل کرنا ہے تو احتجاج اور انقلابی عمل دونوں انقلابی بنیادوں پر مرتب کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی اور احتجاجی جدوجہد محض مطالباتی نہ ہو۔ مزاحمتی ہوں یعنی ان کے انعقاد سے سرمایہ دارانہ نظام کمزور پڑتا ہو۔ مثلاً کراچی الیکٹرک کے خلاف کامیاب احتجاج جب برپا کیا جاسکتا ہے جب انقلابی بنیادوں پر کچی بستیوں میں بجلی کی فراہمی اور کنڈوں کی حفاظت کا انتظام مقامی سطح پر آئمہ مساجد کی قیادت میں کیا جائے اس ضمن میں جنوبی افریقا کی SWETTO کی آبادی کی مثال ہمارے سامنے ہے اس ہی طرح لاطینی امریکا ملک پیرو میں چھوٹی بستیوں میں ترسیل آب کا پورا نظام انقلابیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ کامیاب انتخابی اور احتجاجی جدوجہد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انقلابی عوام کی روز مرہ کی زندگی اور معمولات میں بھرپور شرکت کریں۔ محض گا ہے گاہے تدریس اور اجتماعات کی بنیاد پر عوام کو منظم نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انقلابی رائج شدہ تہذیبی رسوم ورواج سے اپنا رشتہ جوڑیں، مقامی ثقافت کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کی جدوجہد کریں اس کی بہترین مثال قادری اور چشتی صوفیاء کرام کی برصغیر کی مساعی جلیلہ ہے۔ دور حاضر میں ایرانی علماء نے بھی شیعت کا انقلابی استعمال کرکے دکھا دیا۔ کافر انقلابی تحریکوں کی اس نوعیت کی موثر ترین مثالیں بولیویا کی MAS اور بھارت کی نکسل باڑی کی جدوجہد پیش کرتی ہیں۔
احتجاجی اور انقلابی جدوجہد کا ہدف قوت نافذہ کا سرمایہ دارانہ اور ریاستی اشرافیہ سے عوامی اسلامی قیادت تک منتقل کرنا ہے، سرمایہ دار حکومت کی کارفرمائی میں بہتری لانا نہیں ہے۔ لہٰذا کامیاب انقلابی مظاہرہ اور انتخاب سے قبل مخلصین دین کی قیادت میں عوامی ادارتی صف بندی لازم ہے کیونکہ احتجاج یا انتخابات کی کامیابی کے نتیجے میں ہی اس ادارتی قیادت کو ریاستی اقتدار منتقل کیا جائے گا اور ریاستی تنفیذ کمزور پڑے گی اس کی بہترین مثال حزب اللہ کی جدوجہد پیش کرتی ہے۔
مطالبات سرمایہ دارانہ نظاماتی اصلاح کے لیے نہیں سرمایہ دارانہ نظاماتی انہدام کے لیے کیے جانے چاہئیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کامیاب احتجاج اور انتخاب کا ایک ہدف ملک پر سامراج کی گرفت کو کمزور کرنا ہو کیونکہ سامراج ہی ملکی سرمایہ دارانہ مقتدرہ کا اصل سہارا ہے اور ملکی معیشت کو عالمی سرمایہ دارانہ سود اور سٹہ کے نظام سے علیحدہ کیے بغیر اسلامی معاشی ادارتی صف بندی ناممکن ہے۔
نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اہم کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی ریاست کا دفاع اپنے دستوری احاطہ میں کرنے سے قاصر ہے لہٰذا اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے ہمیشہ ماورائے دستور اقدام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ جیسے جیسے مخالفت بڑھتی جاتی ہے غیر دستوری اقدام کا دائرہ وسیع اور تحکیم قانون سرمایہ کا دائرہ سکٹرتا جاتا ہے اور خود لبرل اشرافیہ اور ان کے معتقدین کی نظر میں ریاستی عمل کا جواز مشکوک ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ ماورائے دستور اقدام سے لازما سرمایہ دارانہ بنیادی حقوق معطل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ تضاد سے انقلابی فائدہ اٹھا سکتے ہیں قانون سازی کے عمل میں شرکت کے ذریعہ وہ ماورائے دستور اقدام کی تنفیذ اور انعقاد میں رکاوٹ کھڑی کرسکتے ہیں۔
اس نوعیت کی کارفرمائی کی ایک اہم مثال شمالی آئر لینڈ کی مقننہ میں سین فین کی تحریک تھی۔
سرمایہ دارانہ نظام اور طرز زندگی کا انہدام ایک پیچیدہ اور طویل المدت مرحلہ ہے اس میں احتجاجی اور انتخابی جدوجہد دونوں استعمال کے جانا چاہیے ان کے پیچھے ان کروڑوں مخلصین دین کو صف آراء کرنے کی ضرورت ہے جو اپنی دین داری کا اظہار سیاسی انقلاب کے ذریعہ نہیں کرتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسلامی جماعتوں میں اتحاد ہو اور مصلحین، صوفیاء اور مبلغین کی جماعتیں ان اخلاقی اور روحانی کمزوریوں کو رفع کرنے کی ذمے داری قبول کریں جو انتخابی اور احتجاجی عمل میں مضمر ہیں۔