ریونیو ہدف میں ناکامی کی وجہ

286

ملک میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ایف بی آر نے تسلیم کرلیا ہے کہ اس برس ریونیو جمع کرنے کا ہدف حاصل نہیں ہوپائے گا اور اس کے لیے ہدف پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ ہدف میں ناکامی کی بڑی وجہ درآمدات میں مصنوعی کمی ہے جس کی بناء پر درآمدات پر وصول ہونے والی ڈیوٹیوں میں بھی زبردست کمی واقع ہوئی ہے ۔ آئی ایم ایف کی ہدایت پر اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بجلی ، گیس اور پٹرول جیسی اشیاء کے نرخوںمیں زبردست اضافہ جاری ہے ۔ ایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کے معاملات سامنے آرہے ہیں اور حکومت کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے ۔ ایف بی آر کے ادارے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیوکی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ایک ایک تقریب کے 10 اور 15 لاکھ روپے وصول کرنے والے شادی ہال کے منتظمین بھی ایک روپیہ ٹیکس کی مد میں جمع نہیں کروارہے ۔ یہ منتظمین نہ صرف اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا نہیں کررہے بلکہ تقریب کے میزبانوں سے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں جمع کی ہوئی رقم بھی اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں ۔ ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیوکے تخمینے کے مطابق صرف کراچی کے 660 بڑے شادی ہال ایک برس میں عوام سے جمع کردہ 9 ارب روپے کی رقم ڈکار جاتے ہیں جو سرکار کا حق ہے ۔ اسی طرح دوسری تحقیق کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ پورے ملک میں کانوں سے معدنیات نکالنے والے بھی ایک روپیہ ٹیکس کی ادائیگی نہیں کررہے ۔ قانونی طور پر انہیں 17 فیصد سیلز ٹیکس ایف بی آر کے پاس جمع کروانا چاہیے ۔ ایف بی آر کے تخمینے کے مطابق صرف سندھ میں تقریبا 60 ارب روپے سالانہ کا ٹیکس چوری کیا جارہا ہے ۔ پورے ملک کی بات کی جائے تو معاملات کھربوں میں پہنچتے ہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عبدالحفیظ شیخ جیسے افراد کو ریونیو جمع کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ سوجھتا ہے اور وہ ہے پٹرول ، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ۔ اگر اس طرح کے نظر انداز شعبہ جات سے نہ صرف ٹیکس وصول کرلیا جائے اور گزشتہ برسوں کے ٹیکس کی بھی وصولی کرلی جائے تو نہ صرف ریونیو کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ بجلی ، گیس اور پٹرول کے نرخوںمیں اضافے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ اس بارے میں ہم ان ہی صفحات پر پہلے بھی توجہ دلاچکے ہیں کہ پاکستانی عوام ٹیکس دینا چاہتے ہیں اور دیتے بھی ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو بہتر اورعوام دوست بنایا جائے ۔ ہوٹل ، ریسٹورنٹ ، بڑی دکانیں وغیرہ عوام سے سیلز ٹیکس کی مد میں بھاری رقوم وصول کرتی ہیں مگر انہیں سرکار کے کھاتے میں جمع نہیں کرواتیں ۔ اگر اس لیکیج کا خاتمہ کردیا جائے اور ایسا نظام لایا جائے کہ جیسے ہی دکاندار یا ہوٹل وغیرہ بل بنائے ، ایف بی آر کے سسٹم پر آجائے اور اگر ہفتہ واری یہ رقم جمع نہ ہو تو مذکورہ دکاندار یا ہوٹل مالکان کو بھاری جرمانہ عاید کیا جائے ۔ اسی طرح موبائل فون کمپنیوں سے بھی ہفتہ کی بنیاد پر ٹیکس کی رقم وصول کرلی جائے تو بڑے پیمانے پر ٹیکس کی چوری رک سکتی ہے اور حکومت کو ریونیو جمع کرنے کا ہدف بھی باآسانی حاصل ہوسکتا ہے ۔ ٹیکس چوری اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس میں ایف بی آر کا عملہ معاون نہ ہو ۔ اس پر بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جس دن عوام کو یہ احساس ہوگیا کہ جو ٹیکس وہ ادا کرتے ہیں وہ حکومت تک پہنچ بھی جاتا ہے اور اس کا استعمال بھی درست طریقے سے ہوتا ہے ، اس دن سے حکومت کو ٹیکس جمع کرنے کے لیے غیر معمولی کاوش کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔