چنگیز خان کی رحم دلی!

482

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملک کی معاشی صورت حال پر غور و غوص کیا گیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ چینی کی قیمت 68 روپے فی کلو ہے تو خان صاحب غصے سے لال پیلے ہوگئے اور گرج کر کہا میں غریبوں کو اس طرح لٹتے نہیں دیکھ سکتا۔ چینی کا نرخ 68 روپے بتا کر 70 روپے وصول کیے جارہے ہیں، کیوں کہ میری اطلاع کے مطابق دکان دار دو روپے واپس ہی نہیں کرتا، کہتا ہے کھلے نہیں ہیں۔ اس لوٹ مار سے عوام کو بچانے کے لیے چینی کا ریٹ 70 روپے کردیا جائے۔ جب عمران خان کو بتایا گیا کہ گھی فی کلو 170 روپے فروخت ہورہا ہے تو موصوف حیران ہوگئے اور کہا مجھے تو یہ بتایا گیا تھا کہ گھی 210 تا 225 روپے فی کلو ہے۔ یعنی کہ حد ہوگئی غلط بیانی کی، اب گھی کی نئی قیمت 175 روپے فی کلو ہوگی اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے گا۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ رمضان المبارک سے پہلے راشن کارڈ کا اجرا کیا جائے گا جس کی بدولت غریبوں کو بیس تا تیس فی صد کم نرخ پر اشیائے ضروریات دستیاب ہوں گی۔ محترمہ نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ حکومت پانچ ماہ کے لیے یوٹیلیٹی اسٹور کو 2 ارب ماہانہ سبسڈی اور 5 ارب ماہ رمضان پیکیج کی مد میں دے گی۔ وزیراعظم عمران خان کے احکامات سن کر ہمیں چنگیز خان کی رحم دلی کا ایک واقعہ یاد آگیا بلکہ ہمیں رولا گیا۔ دریا کے کنارے کپڑے دھونے والی کا بچہ دریا میں گر گیا۔ ماں مدد کے لیے چلانے لگی۔ خدا کے لیے میرے
بچے کو ڈوبنے سے بچائو۔ عین اسی وقت چنگیز خان کا گزر ادھر سے ہوا۔ عورت کی چیخ پکار سن کر چنگیز خان عورت کی طرف متوجہ ہوا اور ڈوبتے ہوئے بچے کو نیزے میں پروکر ماں کے حوالے کردیا۔ بچے کو اس حالت میں دیکھ کر ماں نے روتے ہوئے کہا خان اعظم یہ کیا کیا؟۔ چنگیز خان نے جواب دیا۔ اے عورت تو بہت ناشکری اور احسان فراموش ہے۔ ہم نے تیرے بچے کو ڈوبنے سے بچایا۔ تجھے ہمارا احسان ماننا چاہیے، ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے، مگر تو رو رہی ہے ہماری رحم دلی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ کہتے ہیں اس سے پہلے نہ اس کے بعد خان اعظم چنگیز خان نے کسی پر رحم نہیں کیا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مہنگائی کے خلاف واویلا کرنے اور رونا پیٹنا ناشکری کے زمرے میں آتا ہے۔ اشیائے ضروریات نایاب ضرور ہیں مگر دستیاب تو ہورہی ہیں۔ اگر خان صاحب قومی خزانہ بھرنے کے لیے خورونوش کی تمام اشیا افغانستان اور ہندوستان کے ذریعے نیلام کردیتے تو ہم کیا کرلیتے۔ اس وقت بھی روپیٹ کر چپ شاہ کا روزہ رکھ لیتے۔ یہاں ہمیں چنگیز خان کا ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ خان اعظم بستر مرگ پر تھا درباری سر جھکائے بیٹھے تھے۔ خان اعظم نے کہا آسمانی باپ کا بلاوا آچکا ہے اگر کسی کے ذہن میں کوئی ایسا سوال ہو جسے پوچھنے کی اسے جرأت نہ ہوئی آج پوچھ سکتا ہے۔ ایک درباری نے کہا۔ خان اعظم آپ آسمانی باپ کے دربار میں جارہے ہو وہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ خان اعظم نے مسکرا کر کہا۔ آسمانی باپ بہت شفقت سے پیش آئے گا کیوں کہ میں نے کبھی کسی نااہل شخص کو اہم عہدہ نہیں دیا جو لوگ نااہلیت کو فروغ دیتے ہیں آسمانی باپ انہیں کبھی معاف نہیں کرتا۔