ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے معاملے میں صحافی برادری عافیہ موومنٹ کے ساتھ ہے، امتیاز خان فاران

267

کراچی(اسٹاف رپورٹر)کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران کے ہمراہ عشائیے میں شریک عہدیداران نے ڈاکٹر عافیہ کی بلاجواز طویل ہوتی ہوئی اسیری پر دکھ کا اظہار کیا اور عافیہ اور ان کے اہلخانہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے معاملے میں صحافی برادری عافیہ موومنٹ کے ساتھ ہے،

ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے اپنی رہائش گاہ پر کراچی پریس کلب کے صدر امتیازخان فاران، سیکرٹری ارمان صابر اوردیگر عہدیداران اور امریکہ سے پاکستان آئی ہوئیں معروف کالم نگار اور صحافی طیبہ ضیاء چیمہ کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنی والی شخصیات نے بھی شرکت کی۔ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی و دیگر اہلخانہ نے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا،

معروف کالم نگار اور صحافی طیبہ ضیاء چیمہ نے کہا ہے کہ عافیہ کو انسانی بنیادوں پر پاکستان واپس لایا جائے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں بلکہ یہ میرا عقیدہ ہے کہ عافیہ بے گناہ ہے۔ عافیہ کو 86 سال کی سزا امریکی عدالت میں عافیہ کا ٹرائل القاعدہ، طالبان یا کسی دہشت گرد کاروائی کے الزام کی بنیاد پر نہیں دی گئی۔نہ عافیہ کو وہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور نہ مقدمہ چلایا گیابلکہ وہ ایک من گھڑت کاروائی تھی جس کے نتیجے میں صرف عافیہ زخمی ہوگئی تھی،

اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ سے متعلق تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے طیبہ ضیاء چیمہ نے کہا کہ میں نے 2009 ء میں ڈاکٹر عافیہ کے امریکی کورٹ میں ٹرائل کے دوران عافیہ کی پہلی امریکی اٹارنی ایلزبتھ فنک سے ڈاکٹر عافیہ کے کیس سے متعلق سوال کیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ اسے پاکستان لے جاؤ، کیس میں جان نہیں ہے، بہت خلا اور جھول ہے۔میں نے اس سے پوچھا کہ عافیہ کو کیسے پاکستان لے جائیں؟ تو ایلزبتھ فنک نے جواب دیا کہ انسانی حقوق اور ہمدردی کی بنیاد پر اسے پاکستان لے جاؤ۔

وہ پاکستانی شہری ہے، امریکہ میں اس کے ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یہ بات پہلی مرتبہ میں نے ایلزبتھ فنک سے سنی کہ آپ کی پاکستانی حکومت امریکہ کو خط لکھے کہ یہ ہماری شہری ہے آپ اسے واپس کر دیں،

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے سابق صدر زرداری سے جب امریکی دورے کے دوران ایک پریس کانفرنس میں عافیہ سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ حسین حقانی دیکھ رہے ہیں جو کہ اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تعینات تھے۔ حسین حقانی نے اس وقت کہا تھا ہم خط لکھیں گے،

مگر 2009 ء سے اب تک ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔ کچھ سابق جرنیل حقائق کے منافی باتیں کر رہے ہیں۔وہ جرنل مشرف کو بچانے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اب جبکہ 2003س ء سے 17 سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اور ہم سے مراد پاکستانی ہیں کہ گذری ساری باتیں بھلا کر ”انسانی ہمدردی اور پاکستانی شہری“ ہونے کی بنیاد پر عافیہ کو واپس لے کر آئیں،

یہ وہ راستہ ہے جو کہ عافیہ کی پہلی وکیل ایلزبتھ نے پاکستانی عوام اور حکومت کو دکھایا تھا۔ میں پاکستانی عوام سے بھی کہتی ہوں کہ عافیہ کی وطن واپسی کیلئے کھڑے ہوں۔ اگر روز محشر عافیہ نے حضور اکرم(ﷺ)سے کہہ دیا کہ یہ میرے ملک کے لوگ ہیں یہ مجھ پر ہونے والے مظالم پر خاموش تھے تو کیا جواب دو گے؟

انہوں نے کہا کہ میرے وطن کے لوگوں کربلا کا وہ واقعہ یاد کرو جب امام زین العابدین نے کہا تھا کہ مجھے واقعہ کربلا کا اتنا غم نہیں جتنا کہ کوفیوں کی خاموشی پر صدمہ ہے۔۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے تمام مہمان گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی صحافی برادری نے عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے معاملے میں ہمیشہ عافیہ موومنٹ کا ساتھ دیا ہے۔