یہ کیسا یکساں نظام تعلیم ہے؟

455

وفاقی حکومت نے گزشتہ دنوں ایک بل منظور کیا ہے جسے یکساں نظام تعلیم کا بل قرار دیا گیا ہے ۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ عام عصری تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ دینی مدارس میں بھی پڑھایا جائے گا ۔ یوں یہ یکساں نظام تعلیم کا مسودہ قرار پایا جبکہ ساتھ ہی ساتھ آغا خان بورڈ ، بیکن ہائوس ،سٹی اسکول اور دیگر غیر ملکی اسکولوں کی چین کو اس سے استثنیٰ دے دیا جائے گا ۔ پھر یہ یکساں نظام تعلیم کیونکر کہلائے گا ۔ حکومت میں یہ صلاحیت تو ہے نہیں کہ پاکستانی بچوں کی بنیادی ضرورت بنیادی دینی معلومات کی تعلیم ہی دے سکے ، چلی ہے دینی مدارس کو چلانے اور اپنی مرضی کے نظام میں پھنسانے ۔ دینی مدارس کا نظام آج سے نہیںصدیوںسے چل رہا ہے ۔ا گر پاکستان کے دینی مدارس کی بات کی جائے تو یہ مدارس لاکھوں طلبہ کو تعلیم ، خوراک ، رہائش ، لباس صحت کی سہولیات ، کھیل کود کے مواقع اور تفریح ، سب کچھ دیتے ہیں اور طلبہ سے کچھ نہیں مانگتے ۔ جبکہ قومی سطح پر اسکولوں اور عصری نظام میں تعلیم پانے والے طلبہ میں ایک ہزارکے مقابلے میں اعشاریہ ایک فیصد کا فرق ہے ۔ یعنی ہزار بچوں میں سے صرف ایک بچہ مدرسے کا رُخ کرتا ہے ۔ باقی سب عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ اپنے نئے قانون کو مدارس پر مسلط کرنے سے قبل حکومت کو اس قانون کے اور اپنے نظام تعلیم کے سقم دور کرنے ہوں گے ۔ سرکار تو کسی دور میں مدارس چلانے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویز تک سب نے کوشش کی کہ مدارس پر کنٹرول حاصل کر لیا جائے لیکن سرکاری کنٹرول میںکوئی مدرسہ یا دینی درس گاہ نہیں چل سکتی ۔ دینی مدارس کے رجسٹریشن کے فیصلے پر بھی مدارس میں سخت رد عمل ہے ۔ جبکہ وفاق المدارس کے رہنما حنیف جالندھری براہ راست انتباہ کرچکے ہیں کہ دینی مدارس میں رجسٹریشن کے لیے آنے والے کسی بھی ایجنسی کے آدمی کو کوئی معلومات نہیں دی جائے گی ۔ ایک تو دینی مدارس پہلے ہی رجسٹرڈ ہیں دوسرے یہ کہ اگر بالفرض کوئی معلومات لینی ہیں تو خفیہ اداروں کو دینے کے بجائے محکمہ تعلیم کو دے دی جائیں گی ۔ اس مجوزہ پالیسی کو یکساں بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت عصری تعلیمی نصاب میں بھی اسی طرح تبدیلیاں کرے جس طرح وہ مدارس کے نصاب میں چاہتی ہے ۔ لیکن عصری اسکولوں اوریونیورسٹیوں کے طلبہ دینی معلومات سے بالکل عاری ہوتے ہیں کیا حکومت اپنے نظام میں یہ تبدیلی لائے گی کہ بچوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات دی جائیں ۔ یہ تو ناظرہ اور ترجمہ قرآن کریم کے فیصلوںپر بھی عمل نہیں کر اسکے بلکہ الٹا اسلامی تاریخ کے اسباق کھرچ کر پھینک دیے گئے ۔ یہ سارا معاملہ نصاب کی اصلاح یا نظام تعلیم کو یکساں بنانے کا نہیں بلکہ دینی مدارس پر کنٹرول حاصل کرنے کی سعی لا حاصل ہے ۔اس پر دھمکی آمیز جملے بھی مجوزہ قانون میں ہیں کہ جو مدارس رجسٹریشن نہیں کرائیں گے ان کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی ۔ واضح رہے کہ تمام دینی مدارس پہلے ہی جوائنٹ اسٹاک کمپنیز میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے شرائط بھی واضح نہیں ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت دینی مدارس پر خرچ کیا کرتی ہے جو ان پر کاٹھی ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔