خوف پھیلانے کی احمقانہ کوشش

450

ُبدھ کو حکومت نے انتہائی عجلت میں اعلان کیا کہ پاکستان میں دو افرادمیں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے ۔ جس عجلت میں وفاقی وزیر نے یہ اعلان کیا ، وہ خود غور طلب ہے ۔حکومت نے جس اندازمیں تصدیق کی کہ اب پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جہاں پر کورونا کے مریض موجود ہیں ، اس سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے کسی بھی شخص کو اس کے نتائج و عواقب کا علم ہی نہیں تھا یا پھر کسی پراسرار قوت کے کہنے پر یہ کارنامہ سرانجام دیا گیا ۔ اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ پہلے کورونا کی اچھی طرح سے تصدیق کی جاتی اور پھر اعلان کیے بغیر متاثرہ اشخاص کو آئسولیشن وارڈ میں رکھا جاتا ۔ کورونا کوئی ایسا مرض نہیں ہے جس میں مبتلا ہونے کا مطلب یقینی موت ہے ۔ یہ بھی فلو کی طرح کی بیماری ہے اور اس کی علامات اور عام فلو کی علامات میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ تاہم پراسرار طور پر وفاقی وزیر نے اس بارے میں بلا سوچے سمجھے اس طرح اعلان کیا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سبقت لینا چاہتے ہیں کہ اور کوئی اس کے بارے میں انکشاف نہ کردے ۔ وفاقی وزیر نے اعلان کے ساتھ سندھ حکومت کا جو پرفارما جاری کیا ، اس میں لیبارٹری کے نتائج کے سامنے انتظار ہے لکھا ہوا تھا ۔بین الاقوامی معیار کے مطابق اگر کورونا وائرس کا پہلا ٹیسٹ مثبت آئے تو بھی وائرس کے لیے دیگر ٹیسٹ کرنے چاہییں کہ عام فلو اور کورونا کے ٹیسٹ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ کراچی میں جس شخص میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی وہ دوپہر کو آغاخان اسپتال میں داخل ہوا تھا اور چند گھنٹوں کے بعد ہی اس کے بارے میں تصدیقی خبر جاری کردی گئی ۔ اس کے بعد سے پورے ملک میں ایک خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی گئی ہے ۔ فوری طور پر کراچی اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں تعطیلات کا اعلان کردیا گیا ۔ شہری ماسک خریدنے کے لیے میڈیکل اسٹوروں پر ٹوٹ پڑے ۔ اور آناً فاناً قیمتیں چڑھ گئیں۔ 5 روپے والا ماسک 30 روپے سے 50 روپے تک کا ہو گیا۔ اور اب یہ مل بھی نہیں رہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے حکم جاری کیا ہے کہ جہاں کہیں یہ ماسک موجود ہوں، قیمت ادا کر کے اٹھا لیے جائیں۔ اب ماسک کی ذخیرہ اندوزی بھی شروع ہو گئی۔کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا یعنی پاکستانی شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا آغاز کردیا گیا ۔ رات کو ہی سعودی عرب نے پاکستان سے عمرے اور سیاحتی ویزے پر آنے والوں کے لیے تا حکم ثانی پابندی عاید کردی ہے ۔ اب خدشات ہیں کہ اس سے نجی اسپتالوں کی لاٹری کھل جائے گی ۔ ہر برس تیس لاکھ سے زاید افراد پاکستان سے عمرے پر جاتے ہیں ۔ اگر ان سے فی کس پانچ سو روپے بھی کورونا وائرس کے بارے میں سرٹیفکٹ کے طلب کیے گئے تو یہ اسپتال اور لیبارٹریاں اسی سے ڈیڑھ ارب روپے کما لیں گی ۔ حجاج کی ایک لاکھ 18 ہزار تعداد اس کے علاوہ ہے ۔ کورونا وائرس کوئی اچانک تو دریافت نہیں ہوگیا ، اس بارے میں جنوری سے خبریں آرہی ہیں ۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ایران کی بھی خبریں آرہی ہیں تو پھر حکومت نے اس بارے میں کوئی واضح پالیسی کیوں ترتیب نہیں دی ۔ کیا کسی کو علم نہیں ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کو افراد کے لاک ڈاؤن کے لیے نہیں بلکہ ممالک کے لاک ڈاؤن کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ اگر اسی طرح کے سرکاری تصدیقی سرٹیفکٹ جاری کیے جاتے رہے تو اندیشے ہیں کہ پاکستانی برآمدات پر بھی پابندیاں عاید ہونا شروع ہوجائیں گی جس کے نتیجے میں ملک کی رہی سہی معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ کورونا وائرس کا خوف پھیلا کر اب اس کی روک تھام کے نام پر اربوں روپے کے اخراجات شروع ہوجائیں گے اور اس گنگا میں سرکاری افسران کے ساتھ ساتھ وزراء بھی خوب مال بٹوریں گے ۔ کورونا وائرس کے معاملے کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں انتظام و انصرام نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔ اگر ملک میں خدانخواستہ کوئی قدرتی آفت آ ہی گئی تو پھر حکومت کیا کرے گی ۔ پاکستان میں رشوت خوری کی تو یہ صورتحال ہے کہ ایک کلپ وائرل ہے جس میں ایک پاکستانی ائرپورٹ پر متعین افسر ملک آنے والے پاکستانی مسافروں سے رشوت طلب کررہا ہے کہ اگر اس کو رشوت نہ دی گئی تو وہ انہیں کورونا وائرس کا مشتبہ مریض قرار دے کر پندرہ دن کے لیے قرنطینہ میں بھجوادے گا ۔