ایک اور ’’مہاتیر محمد‘‘ مل سکے گا؟

360

جنوبی ایشیا کی تاریخ میں اگر 5 اگست 2019 نہ آتا تو ہمارے لیے ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی اقتدار کے ایوانوں میں آمد ورفت محض ایک اسلامی ملک میں جاری سیاسی کشمکش کے نتیجے میں ہونے والی اتھل پتھل قرار پاتی۔ یہ خبر شاید ہمارے عوام کی توجہ بھی حاصل نہ کرپاتی۔ مسلمان ملکوں میں محلاتی سازشیں اور اقتدار کی رسہ کشی اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والے خونیں اور غیر خونیں انقلابات معمول ہیں۔ انڈونیشیا سے مراکش تک اس پٹی کو سیاسی استحکام نصیب ہے اور نہ جمہوریت اپنی پوری روح کے ساتھ حاصل ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آئے روز ان ملکوں میں سیاسی زلزلے رونما ہوتے ہیں۔ پانچ اگست کو نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملہ کرکے پاکستان کو حالات کے بے آب وگیاہ صحرا میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان ذہنی طور پر ایسے کسی فیصلے کے لیے تیار نہیں تھا اور یوں یہ واقعہ سماعتوں پر بجلی بن کر گرگیا۔ فیصلہ ہونے کے بعد پاکستان کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا تو دور دور تک کوئی مونس اور غم گسار دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جن پتوں پر تھوڑا بہت تکیہ تھا وہ پہلے ہی ہوائیں دے رہے تھے اس فیصلے کے بعدتو وہ زیادہ قوت سے جھول جھول کر ہوا دینے لگے۔ مشکل کی اس گھڑی میں ستاون ملکوں کی بھیڑ میں چند ہی ہاتھ مسیحائی کو آگے بڑھے۔ ملائیشیا کے بانوے سالہ راہنما ڈاکٹر مہاتیر محمد ان میں شامل تھے جنہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت کی مذمت اور پاکستان اور کشمیریوں کی حمایت کا پُر خطر اور مشکل راستہ اپنایا اور پھر سودوزیاں کی پروا کیے بغیر اس راہ پر مسلسل آگے بڑھتے رہے۔ چین، ملائیشیا، ترکی اور کسی حد تک ایران اس صف میں کھڑے دکھائی دیے۔ یہی وجہ
ہے مہاتیر محمد جن کی پہچان ایک ایسے سیاسی راہنما کی تھی جس نے اپنے ملک پر طویل عرصے تک جمہوری انداز سے حکومت کی اور اس ملک کو معاشی بدحالی کی پستیوں سے نکال کر اقتصادی ایشین ٹائیگر بنادیا مگر پانچ اگست کے بعد ان کی شناخت پاکستان کے ایک مشکل لمحوں کے ساتھی، مصلحت اور خوف سے آزاد ایک مسلمان راہنما کی ہو گئی اور اس لیے ان کے اقتدار کی رخصتی کو معدودے چند دوستوں میں سے ایک کمی سمجھا جا رہا ہے۔
مہاتیر محمد نے وعدے کے عین مطابق اپنا استعفا بادشاہ کو بھیج دیا ہے اور یوں اس کی رسمی منظوری ہی باقی ہے۔ عملی طور پر مہاتیر محمد نے اسٹیج اپنے اتحادی انور ابراہیم کے لیے خالی کردیا ہے۔ انور ابراہیم وزیر اعظم بنتے ہیں یا اس سیاسی اتحاد سے کسی اور کے نام قرعۂ فال نکلتا ہے؟ ملائیشیا مزید کسی مخلوط حکومت کے جھنجٹ میں پڑنے کے بجائے نئے انتخابات کی طرف جاتا ہے قطع نظر ان سوالوں کے ہمارے لیے اہم سوال یہ ہیں کہ کیا ملائیشیا کے نئے منظرنامے میں ہمیں ایک اور ’’مہاتیر محمد‘‘ دستیاب ہوگا؟ کیا ان کا جانشین بھی کشمیر اور دوسرے مسائل پر اسی جرات اور استقامت کا مظاہرہ کرے گا؟۔ کسی نئے انداز اور نئے انتظام سے مہاتیر محمد کی واپسی کا امکان بھی موجود ہے مگر سیاست اور انتخاب ایک جوا ہوتا ہے جس میں ہر ہار اور جیت بہم قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ اس وقت ملائیشیا کی سیاست بڑی حد تک پاکستانی سیاست سے مطابقت کی حامل ہے۔ اقتدار کی رسہ کشی، سیاسی حریفوں میں دشمنی کا سا انداز، بدعنوانی کے الزامات اور عدالتوں کے غیر معمولی فیصلے، کل کے دوست، آج کے دشمن اور آج کے دشمن کل کے دوست غرض یہ کہ سب کچھ وہی جو پاکستان میں ہوتا چلا آرہا ہے۔
مہاتیر محمد 1981 سے 2003 تک مسلسل ملائیشیا کے وزیر اعظم رہے۔ مہاتیر محمد 2018 میں نجیب رزاق کو ہرا کر اقتدار میں آئے تھے، پاکستان کی سیاست کی طرح نجیب رزاق پر بدعنوانی کے سنگین الزامات تھے اور پاکستان ہی کی طرح ملائیشیا کی عدالتوں نے نجیب رزاق کو ان الزامات سے بری کردیا۔ مہاتیر محمد ایک اتحادی حکومت کے سربراہ تھے جن کی حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ وزیر اعظم بنتے ہی ان پر یہ دبائو موجود تھا کہ وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے لیے مدت کا تعین کریں اور اس کے بعد انور ابراہیم کے لیے خالی کریں۔ مہاتیر ٹائم فریم دینے پر رضامند نہ تھے ان کا موقف تھا کہ یہ معاملہ ان پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کب مستعفی ہو کر سیاسی اتحادی کو آگے آنے دیتے ہیں۔ انور ابراہیم اندر خانہ مہاتیر محمد پر دبائو بڑھائے رہے اور اب مہاتیر محمد نے اچانک اس دبائو سے نکل کر استعفا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس میں ان کی رضا ورغبت کا حصہ بہت کم ہے اور یہی وہ پہلو ہے کہ جو ملائیشیا میں سیاسی عدم استحکام بڑھنے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ مہاتیر کے اس انداز سے استعفے کو ’’کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا‘‘ اسٹائل کہا جا رہا ہے اور اس میں ان کے پوشیدہ سیاسی عزائم کو تلاش کیا جارہا ہے۔ مہاتیر محمد کے اقتدار کے اس پونے دوسال کے عرصے میں انہیں پانچ سال کے لیے وزیر اعظم رکھنے اور اقتدار انور ابراہیم کو منتقل کرنے کی دومتوازی مہمات سرد جنگ کی صورت میں چلتی رہیں۔ شاید اسی دبائو سے تنگ آکر مہاتیر محمد نے اقتدار انور ابراہیم کو باضابطہ طور پر منتقل کرنے کے بجائے ایک خلا اور ابہام پیدا کر دیا گویا کہ چورانوے سالہ مہاتیر محمد ایوان ِ اقتدار سے رخصت ہوئے مگر کوچہ ٔ سیاست میں پوری قوت سے موجود ہیں۔ دوسری طرف انور ابراہیم اور مہاتیر محمد کا تعلق نشیب وفراز سے بھرپور ہے۔ انور ابراہیم سیاست میں مہاتیر محمد کے دست راست اور ان کے جانشین سمجھے جاتے تھے مگر بعد میں سیاسی سفر کے دوران مہاتیر محمد کے شیشۂ دل میں ان کے لیے بال آگیا اور دونوں کی راہیں جد ا ہوگئیں۔ مہاتیر محمد نے 1998 میں انور ابراہیم کو نائب وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کرکے قید کردیا۔ ملائیشیا کے عوام نے ان الزامات کو سیاسی مخالفت سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ دوستی کے طویل تعلق کے بعد تلخی کا ایک بھرپور دور گزارنے کے بعد مہاتیر محمد نے 2018 میں انور ابراہیم سے اتحاد کرکے ملائیشیا کے عوام کو حیران کر دیا۔ اپنے اس قدم کے دفاع میں ان کا کہنا تھا کہ نجیب رزاق کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ غیر متوقع اتحاد کے اس فیصلے نے دونوں کو انتخابی کامیابی تو عطا کی مگر یہ مجبوری کا سودا ہی ثابت ہوا۔ مہاتیر محمد اور انور ابراہیم کے درمیان سرد جنگ جا ری رہی جس کا نتیجہ مہاتیر محمد کے اچانک مستعفی ہونے کی صورت میں برآمد ہوا۔ ملائیشیا کی متوقع سیاسی صورت گری سے قطع نظر مہاتیر محمد کی رخصتی عالمی دوستوں کی مختصر سی فہرست میں مزید کمی کا باعث بن گئی۔