افکار سید ابولاعلی مودودیؒ

137

سیدنا ابراہیمؑ
قرآن میں مختلف مقامات پر اْن تمام سخت آزمائشوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے، جن سے گزر کر سیدنا ابراہیمؑ نے اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کیا تھا کہ انہیں بنی نوعِ انسان کا امام و رہنما بنایا جائے۔ جس وقت سے حق ان پر منکشف ہوا، اس وقت سے لے کر مرتے دم تک ان کی پوری زندگی سراسر قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں جتنی چیزیں ایسی ہیں، جن سے انسان محبّت کرتا ہے، اْن میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھِ ، جس کو سیدنا ابراہیمؑ نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو۔ اور دنیا میں جتنے خطرات ایسے ہیں، جن سے آدمی ڈرتا ہے، اْن میں سے کوئی خطرہ ایسا نہ تھا، جسے انہوں نے حق کی راہ میں نہ جھیلا ہو۔ (تفہیم القرآن، حاشیہ سورہ البقرہ، حاشیہ 124)
٭…٭…٭
خانۂ خدا کی پاکی
پاک رکھنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ کْوڑے کرکٹ سے اْسے پاک رکھا جائے۔ خدا کے گھر کی اصل پاکی یہ ہے کہ اس میں خدا کے سوا کسی کا نام بلند نہ ہو۔ جس نے خانۂ خدا میں خدا کے سوا کسی دْوسرے کو مالک، معبْود، حاجت روا اور فریاد رس کی حیثیت سے پکارا، اس نے حقیقت میں اْسے گندا کر دیا۔ یہ آیت ایک نہایت لطیف طریقے سے مشرکینِ قریش کے جْرم کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ ظالم لوگ ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کے وارث ہونے پر فخر تو کرتے ہیں، مگر وراثت کا حق ادا کرنے کے بجائے اْلٹا اس حق کو پامال کر رہے ہیں۔ لہٰذا جو وعدہ ابراہیمؑ سے کیا گیا تھا، اس سے جس طرح بنی اسرائیل مستثنیٰ ہوگئے ہیں، اسی طرح یہ مشرک بنی اسمٰعیل بھی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (تفہیم القرآن، سورہ البقرہ، حاشیہ 126)
٭…٭…٭
امامتِ صالحہ اَور رزق ِ دْنیا
سیدنا ابراہیمؑ نے جب منصبِ امامت کے متعلق پوچھا تھا، تو ارشاد ہوا تھا کہ اس منصب کا وعدہ تمہاری اولاد کے صرف مومن و صالح لوگوں کے لیے ہے، ظالم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے بعد جب ابراہیمؑ رزق کے لیے دْعا کر نے لگے، تو سابق فرمان کو پیشِ نظر رکھ کر اْنہوں نے صرف اپنی مومن اولاد ہی کے لیے دْعا کی، مگر اللہ تعالیٰ نے جواب میں اس غلط فہمی کو فوراً رفع فرمادیا اور انہیں بتایا کہ امامتِ صالحہ اَور چیز ہے اور رزق ِ دْنیا دْوسری چیز۔ امامتِ صالحہ صرف مومنینِ صالح کو ملے گی، مگر رزقِ دْنیا مومن و کافر سب کو دیا جائے گا۔ اس سے یہ بات خود بخود نِکل آئی کہ اگر کسی کو رزقِ دْنیا فراوانی کے ساتھ مِل رہا ہو، تو وہ اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ اللہ سے راضی بھی ہے اور وہی خدا کی طرف سے پیشوائی کا مستحق بھی ہے۔ (تفہیم القرآن، سورہ البقرہ، حاشیہ 127)
٭…٭…٭
مُسلم
مُسلِم: وہ جو خدا کے آگے سرِ اطاعت خَم کردے، خدا ہی کو اپنا مالک، آقا، حاکم اور معبْود مان لے، جو اپنے آپ کو بالکلیہ خدا کے سپرد کر دے اور اْس ہدایت کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرے، جو خدا کی طرف سے آئی ہو۔ اس عقیدے اور اس طرزِ عمل کا نام ’’اسلام‘‘ ہے اور یہی تمام انبیا کا دین تھا جو ابتدائے آفرینش سے دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں آئے۔ (تفہیم القرآن، سورہ البقرہ، حاشیہ 130)