ناکامی کے اسباب قرآن و سنت کی روشنی میں

492

مفتی محمد یوسف کشمیری

دنیا میں وسائل یا صلاحیتوں کے اعتبار سے اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کی ہیں۔ اس کے باوجود ہر طرف پریشانی ہے، غم ہے، عزتیں لٹ رہی ہیں، مسلمان قتل ہو رہے ہیں، ملکوں کو تخت و تاراج کیا جا رہا ہے۔ کہیں بھی سکون نہیں۔ اخلاقیت کے اعتبار سے امت مسلمہ پستی کا شکار ہے۔ آخر اس کے اسباب کیا ہیں؟ آپ میڈیا پر مختلف قسم کے تجزیے، تبصرے پڑھتے ہوں گے۔ ہر انسان اپنے علم اور اپنی معلومات کے دائرے میں لکھ رہا ہے۔ کوئی اس زوال کے اسباب کو غربت قرار دے رہا ہے۔ کچھ لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہنے کو زوال کا سبب قرار دے رہے ہیں۔
مسلمان اپنے ہر مسئلے کا حل کتاب و سنت میں تلاش کرتا ہے۔ ہماری پریشانیوں کے اسباب بھی اللہ اور اس کے رسولؐ نے بتائے ہیں۔ یقیناً انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے، اس کی شکل و صورت اللہ نے بنائی ہے۔ اس کرہ ارض کا نظام اللہ نے بنایا اور چلا رہا ہے۔ اس کے لیے دستور، منشور اور عروج و زوال کے اسباب بھی اللہ نے ہی بیان فرمائے ہیں۔ اگرچہ جہالت بھی ایک اہم سبب ہے۔ غربت اور مہنگائی بھی ہے اور اسی طرح جدید اسباب اور وسائل کے اعتبار سے بھی مسلمان قدرے پیچھے ہیں۔ لیکن یہ ہماری اس پستی اور زوال کے اسباب نہیں ہیں، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا آدم ؑ سے لے آخری رسول نبی کریمؐ تک اللہ نے قرآنِ حکیم میں قوموں کے عروج و زوال کی داستان، ان کے قصے اور واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اللہ کے نبیؐ نے بھی اس پر اپنی امت کی رہنمائی کی ہے۔ ہر دور میں حق والے، دین پر استقامت اختیار کرنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے رہے ہیں۔ وسائل بھی ان کے پاس کم ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کسی بھی دور میں مسلمان ان اسباب کی وجہ سے پستی کا شکار نہیں ہوئے۔ قرآنِ کریم میں اللہ فرماتے ہیں: کتنی کمزور جماعتیں (قلیل تعداد میںاور قلیل وسائل کے با وجود) اللہ کے حکم سے مضبوط اور کثرت والی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ (سورۃ البقرۃ: 249) غزوہ بدر میں 313 مسلمانوں کے مقابلے میں 1000 مشرکین تھے۔ اُدھر کیل کانٹے سے لیس لشکر تھا اور اِدھر فولادی تلواروں کے مقابلے میں کئی صحابہ کرام کے ہاتھ میں کھجور کی چھڑیاں تھیں۔ اسی طرح اُحد میں دیکھ لیجیے، خندق میں دیکھ لیجیے، مشکل حالات اور وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود کامیابی و کامرانی مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔
آپ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ دیکھیں اور اس کا اچھی طرح جائزہ لیں اور مطالعہ کریں۔ حقائق پر نظر رکھیں، آپ کو یقین ہو جائے گا کہ وسائل کی کمی مسلمانوں کی پستی کے اسباب میں سے نہیں ہے۔ دراصل سب سے بڑی کمزوری ہمارے عقیدے اور ایمان کی کمزوری ہے۔ قرآنِ کریم میں کتنی آیتیں ہیں، جن میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ ان کو غلبہ ملے گا، عزت ملے گی، حکومتیں ملیں گی، زمین میں اقتدار ملے گا، ان کا سکہ چلے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان عقائد میں پختہ اور ایمان میں مضبوط ہوں۔ شرک اور بدعات و خرافات کا مسلمانوں میں آجانا، مسلمانوں کی ذلت اور رسوائی کا بڑا سبب ہے، جس پر آج ہم غور و فکر نہیں کرتے۔ نبی کریمؐ کی نافرمانی اور ان کی احادیث سے روگردانی، اللہ کے نبیؐ کی سیرت سے دوری، یہ تمام زوال کے بڑے اسباب ہیں۔ قرآنِ کریم میں بالکل واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے: ڈرجائیں، باز آجائیں وہ لوگ جو احادیث کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر نہیں باز آئیںگے تو پھر یہ سن لیں کہ ان کو فتنے میں مبتلا کردیا جائے گا۔ (سورۃ النور: 63) آج امت مسلمہ فتنوں میں مبتلا ہے۔
آپ اس واقعے پر غور کریں کہ غزوہ احد میں جبلِ رماۃ کے پیچھے سے خالد بن ولید نے شہہ سواروں سمیت حملہ کر دیا۔ جس سے مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں۔ اللہ کے نبیؐ زخمی ہوگئے۔ 70صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ بے شمار لہولہان اور زخمی ہوگئے۔ یہ کیوں ہوا؟ یہی سوال صحابہ کرام ؓ کے ذہن میں آیا کہ فتح شکست میں کیسے بدل گئی؟ یہ کیوں ہوا اس کے اسباب کیا ہیں؟ کیا اللہ کے نبیؐ ہماری صفوں میں موجود نہیں؟ اللہ نے فرمایا: اے نبیؐ انہیں بتا دیجیے کہ یہ تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ (سورۃ

العمران: 165) نبیؐ کے حکم کی، ان کے فرامین کی مخالفت اللہ تعالیٰ کو قبول نہیں۔