محمد رضی الاسلام ندوی
میں نے نکاح کئی پڑھائے ہیں، لیکن آج کا نکاح ان سب سے مختلف تھا۔ آج کے نکاح میں دولہا کی عمر 70 برس اور دلہن کی عمر 50 برس سے متجاوز تھی۔ میں مسجد پہنچا تو دولہا سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے سلام کرتے ہی دریافت کیا: میرے اس اقدام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے جواب دیا: آپ کا اقدام مبارک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں خیر فرمائے۔
دولہا ہمارے رفیق (جماعت اسلامی ہند کے رکن ) ہیں۔ اس عمر میں بھی بڑے متحرک رہتے ہیں۔ جسمانی اور مالی دونوں اعتبار سے دین اور تحریک کو تقویت پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ گزشتہ برس جماعت نے طے کیا کہ ورلڈ بک فیئر میں ایک اسٹال لیا جائے اور وہاں آنے والوں کے درمیان اسلامی تعلیمات پر مشتمل فولڈرس اور لٹریچر تقسیم کیا جائے۔ اس ٹیم میں موصوف بھی شامل تھے۔ انھوں نے ایک ہفتہ روزانہ کئی گھنٹے وقت دیا اور بڑے سرگرم رہے۔ موصوف کے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے، سب شادی شدہ ہیں اور خوش وخرم زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ کا کئی سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کے بیٹوں نے اس نکاح میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی۔
میں نے خطبۂ نکاح کے بعد مختصر تذکیر ضروری سمجھی۔ میں نے عرض کیا کہ کوئی عمل محض کلچر اور رسم و رواج کی وجہ سے متروک ہوجائے، حالانکہ دینی اعتبار سے نہ صرف اس کی اجازت ہو، بلکہ وہ پسندیدہ ہو، اس پر عمل بڑے مجاہدے کا کام ہے۔ عمل کرنے والا ان شاء اللہ اس پر اجر کا مستحق ہوگا۔ کسی شخص کی اولاد بڑی ہوگئی ہو اور شادی کے بعد سب بچے والے ہوں، اس صورت میں اگر وہ شخص نکاح کا ارادہ کرے تو سماج میں اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ بسا اوقات اولاد ہی اس راہ میں رکاوٹ بنتی ہے، حالانکہ دینی اعتبار سے بلوغت کے بعد نکاح کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔
میں نے عرض کیا کہ مرد کی عمر کم ہو، عورت کی زیادہ، یا عورت کی عمر کم ہو، مرد کی زیادہ، یا دونوں نوجوان ہوں، یا دونوں ادھیڑ عمر کے یا بوڑھے ہوں، عورت کنواری ہو یا شوہر دیدہ (مطلقہ یا بیوہ)، مرد کنوارا ہو یا دوسری مرتبہ نکاح کررہا ہو، عہد نبوی میں ہر طرح کے نکاح کی مثالیں ملتی ہیں۔ امہات المؤمنین میں سے سیدہ عائشہؓ کے علاوہ سب کا نکاح رسول اللہؐ سے ہونے سے قبل ایک سے زائد بار ہوچکا تھا۔ ام المؤمنین سیدہ سودہؓ سے نکاح کے وقت رسول اللہؐ کی عمر پچاس برس سے زائد تھی اور سیدہ سودہ کی عمر آپ سے کچھ ہی کم تھی۔ سیدہ ام ایمنؓ نے رسول اللہؐ کو گود کھلایا تھا۔ ان کے شوہر عبد بن الحارث کا انتقال ہوگیا تو آپؐ نے ان کا نکاح سیدنا زید بن حارثہؓ سے کرادیا تھا، جن کی عمر ان سے کم تھی۔ فاطمہ بنت قیسؓ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تو انھوں نے رسول اللہؐ کے مشورے سے اسامہ بنت زیدؓ سے نکاح کرلیا تھا، جو ان سے بہت چھوٹے تھے۔ عاتکہ بنت زیدؓ کے شوہر ایک ایک کرکے شہید ہوتے رہے اور ان کا دوسرے سے نکاح ہوتا رہا۔
میں نے عرض کیا کہ نکاح کو قرآن میں ’حِصن‘ (قلعہ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مرد اور عورت دونوں نکاح کرکے شیطان کے شرور اور بہکاوے سے خود کو محفوظ کرلیتے ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ ہندوستانی کلچر میں کوئی شخص بڑی عمر کو پہنچنے کے بعد نکاح کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کا مذاق بنایا جاتا ہے اور چٹکلے چھوڑے جاتے ہیں۔ یہ رویّہ درست نہیں ہے۔ ہر عمر میں نکاح کیا جاسکتا ہے۔